نئی دہلی: صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست نے بھارت اور چین کو قریب لانا شروع کر دیا ہے۔
قطری خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت امریکا کی زیر قیادت کوآڈ (Quad) اتحاد کو کمزور کر سکتی ہے اور خطے میں نئے ایشیائی تجارتی بلاکس کے ابھرنے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔
پانچ سال قبل بھارت اور امریکا کے تعلقات عروج پر تھے اور چین کو کھلے عام مخالف سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب منظرنامہ بدل رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کیے جانے اور پاکستان کے ساتھ واشنگٹن کی بڑھتی قربت نے نئی دہلی کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر مجبور کیا ہے۔
مزید پڑھیں: زرعی تربیت کے لیے 300 پاکستانی طلبا چین بھیجے جائیں گے، وزیر اعظم
رپورٹ میں کہا گیا ہے رواں ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کے دوران باہمی احترام اور حساسیت کو سراہا اور تعلقات میں مستحکم پیش رفت کی نشاندہی کی۔ دونوں ممالک نے براہِ راست پروازوں کی بحالی، ویزوں میں نرمی اور سرحدی تجارت کی سہولت جیسے اقدامات پر اتفاق کیا۔
چین نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارتی مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں زیادہ جگہ دے گا، جو امریکہ کے بھاری ٹیکسوں سے متاثر بھارتی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت کو یقین ہے کہ چین سے تعاون بڑھا کر وہ اپنی تجارتی تنہائی کم کر سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ قربت ایشیا میں امریکا کے اثر و رسوخ کے لیے چیلنج ثابت ہو سکتی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ بھارت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے خلاف واضح پوزیشن لے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور چین کا خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے مل کر کام کرنے کا اعلان
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات اور اعتماد کی کمی موجود ہے، لیکن تجارتی مفادات اور امریکی دباؤ نے دونوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واشنگٹن میں بھارت کو ہمیشہ چین کے مقابلے میں ایک جمہوری توازن کے طور پر دیکھا گیا، مگر اب بھارت اپنی اسٹریٹجک خود مختاری کے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔
جامعہ جواہر لعل نہرو کے پروفیسر بی آر دیپک کے مطابق اگر بھارت بیجنگ کے ساتھ ترقیاتی مالیات، کثیرالجہتی اصلاحات اور ڈی ڈالرائزیشن جیسے امور پر ہم آہنگی بڑھاتا ہے تو یہ امریکہ کے بیانیے کو کمزور کرے گا اور چین کے متبادل عالمی نظام کو تقویت دے گا۔ تاہم، ماہرین متفق ہیں کہ کوآڈ کی حکمتِ عملی مکمل طور پر ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کی توجہ زیادہ تر مشترکہ مفادات جیسے سپلائی چینز، سمندری سلامتی اور ٹیکنالوجی پر مرکوز رہے گی۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اور چین کی حالیہ قربت نہ صرف خطے میں نئی تجارتی صف بندی کا پیش خیمہ ہے بلکہ امریکہ کے لیے ایشیا میں اپنی پالیسیوں کو برقرار رکھنا بھی مشکل بنا سکتی ہے۔