سکھوں کی علیحدگی پسند تنظیم “سکھ فار جسٹس” (SFJ) کے سربراہ اور خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا ہے کہ 15 اگست کو بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کو دہلی میں ترنگا لہرانے سے روکا جائے گا، اور اسی تناظر میں 31 اگست کو خالصتان تحریک کے لیے ایک اہم اور فیصلہ کن دن قرار دیا۔
ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پنوں نے اعلان کیا کہ 17 اگست کو امریکا میں “دلی بنے گا خالصتان” کے عنوان سے عالمی ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے گا۔
جس کا مقصد عالمی برادری کو یہ پیغام دینا ہے کہ دلی سمیت بھارت کے متعدد شمالی علاقے جن میں ہماچل پردیش، ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے کچھ حصے شامل ہیں مجوزہ خالصتان کا حصہ ہوں گے۔
انہوں کہا ہے کہ سکھ عوام کو بھارت سے آزادی کے لیے متحد ہونا ہوگا، اور اس جدوجہد میں پاکستان کے ساتھ تعاون کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
گرپتونت پنوں نے الزام عائد کیا کہ بھارتی حکومت سکھ برادری پر مسلسل پابندیاں عائد کر رہی ہے، جبکہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا وائٹ ہاؤس میں سرکاری استقبال پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر کیے گئے حملوں میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کا مؤثر جواب دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مزاحمت کے ذریعے دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خالصتان کا تفصیلی نقشہ جاری کر دیا گیا ہے، اور واضح کیا کہ اس نقشے میں پاکستان کے پنجاب یا کسی بھی پاکستانی علاقے کو شامل نہیں کیا گیا۔ ان کے بقول، یہ دعویٰ کہ خالصتان کا نقشہ پاکستانی علاقوں پر مشتمل ہے، دراصل بھارتی حکومت اور اس کے حامیوں کی جانب سے منفی پروپیگنڈا ہے۔
گرپتونت سنگھ پنوں کا کہنا تھا کہ کینیڈا کے وزیرِاعظم نے بھارت پر کئی عالمی سطح پر تنقید کی ہے، جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خط خالصتان تحریک کی قانونی حیثیت کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
یاد رہے کہ گرپتونت سنگھ پنوں کینیڈا میں مقیم ایک سکھ وکیل ہیں، اور انہوں نے 2007 میں “سکھ فار جسٹس” تنظیم کی بنیاد رکھی، جو کہ خالصتان کے قیام کے لیے دنیا بھر میں ریفرنڈم مہم چلا رہی ہے۔