امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ قطر کی جانب سے دیا گیا تحفہ بوئنگ 747-8 طیارہ فروری 2026 تک بطور ایئر فورس ون استعمال کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔
یہ ڈیلیوری امریکی فضائیہ کے بوئنگ پروگرام کے تحت تیار ہونے والے دو نئے صدارتی طیاروں سے کہیں پہلے ہوگی، جن کی تکمیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔
ٹرمپ نے جولائی کے آخر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کہتے ہیں فروری میں تیار ہوگا، باقی طیارے تو ابھی بن رہے ہیں۔
تاہم سابق دفاعی حکام اور ایوی ایشن ماہرین اس ٹائم لائن کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق کسی غیر ملکی حکومت کے طیارے کو صدارتی معیار پر اپ گریڈ کرنا اور اسے بین الاقوامی سطح پر محفوظ و محفوظ ترین فضائی سفر کے قابل بنانا ایک نہایت پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔
اینڈریو ہنٹر جو بائیڈن انتظامیہ میں فضائیہ کے سابق اسسٹنٹ سیکریٹری رہ چکے ہیں اور ایئر فورس ون سمیت اربوں ڈالر کے خریداری منصوبوں کی نگرانی کرتے تھے، کہتے ہیں کہ یہ تقریباً ناممکن ہوگا کہ مختصر وقت میں قطری طیارے کو ایئر فورس ون کی تمام صلاحیتوں سے لیس کیا جا سکے جب تک کہ ٹرمپ بعض لازمی حفاظتی تقاضوں سے صرفِ نظر نہ کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں قانونی اور اخلاقی پہلو بھی زیرِ بحث ہیں، کیونکہ کسی غیر ملکی تحفے کو قبول کرنا حساس معاملہ ہے۔
مزید یہ کہ محفوظ مواصلاتی نظام، جدید دفاعی ٹیکنالوجی، اور صدارتی سکیورٹی کے معیار پر طیارے کو لانا ایک انتہائی بڑا انجینئرنگ اور انٹیلی جنس آپریشن ہے، جس میں امریکی سکیورٹی ایجنسیاں طیارے کو مکمل طور پر کھول کر نئے سرے سے بناتی ہیں۔
ایرو ڈائنامک ایڈوائزری کے مینیجنگ ڈائریکٹر رچرڈ ابو العافیہ کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ فروری تک اڑان بھر سکتا ہے، لیکن اس میں ایئر فورس ون کی سکیورٹی یا صلاحیتیں ہرگز نہیں ہوں گی اور یہ خطرہ موجود ہے کہ انتظامیہ مقررہ وقت میں طیارہ دینے کے لیے حفاظتی تقاضوں میں کٹوتی کرے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ہو سکتا ہے فروری میں یہ تیار ہو، مگر تب یہ ہر آن بورڈ گفتگو دنیا میں کہیں بھی سننے والوں کو براہِ راست نشر کر رہا ہوگا۔
اس وقت بوئنگ کے نئے صدارتی طیارے سان انتونیو میں ری نوویشن کے مراحل میں ہیں، جبکہ قطری طیارہ بھی اپ گریڈنگ کے انتظار میں وہیں کھڑا تھا، مگر 29 جون کو یہ فورٹ ورتھ الائنس ایئرپورٹ منتقل ہوا، جہاں جولائی کے آخر تک اس کی موجودگی دیکھی گئی۔
ماہرین متفق ہیں کہ کسی پرانے غیر ملکی طیارے کو صرف پرواز کے قابل بنانا اور اسے صدرِ امریکا کی محفوظ ترین فضائی رہائش گاہ میں بدل دینا یہ دونوں کام بالکل الگ اور بہت مختلف ہیں، اور اس میں کٹوتی کرنا قومی سلامتی پر براہِ راست سمجھوتہ ہوگا۔