آل پاکستان تنظیم تاجران کے رہنماؤں نے ایف بی آر کے ساتھ مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت ظالمانہ ٹیکسز قبول نہیں کریں گے۔
تاجر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ کاروبار دوست پالیسیاں وقت کی ضرورت ہیں۔ ایف بی آر سے تعمیری مذاکرات مثبت پیش رفت ہے، تاہم وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ناگزیر ہے۔
تفصیلات کے مطابق آل پاکستان تنظیم تاجران کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے اہم مذاکرات کیے، جن میں تاجروں کو درپیش مختلف ٹیکس اور ریگولیٹری امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
مذاکرات کے دوران ایف بی آر نے چھوٹے تاجروں اور ریٹیلرز کے حوالے سے کئی اہم یقین دہانیاں کرائیں۔
ایف بی آر حکام نے واضح کیا کہ دو لاکھ روپے تک کی نقد رقم بینک میں جمع کروانے پر کسی قسم کی ٹیکس کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ اس اعلان سے چھوٹے کاروباری طبقے کو درپیش ایک اہم خدشے کا ازالہ ہوا ہے۔
حکام کے مطابق ڈیجیٹل انوائسنگ کا اطلاق چھوٹے تاجروں یا ریٹیلرز پر نہیں ہوگا بلکہ یہ نظام مرحلہ وار صرف بزنس ٹو بزنس (B2B) سیلز ٹیکس رجسٹرڈ کمپنیوں پر نافذ کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر نے اعلان کیا کہ ڈیجیٹلائزیشن کمیٹی میں تاجر نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ پالیسی سازی میں براہ راست مشاورت ممکن ہو۔
ایف بی آر نے واضح کیا کہ سیلز ٹیکس قوانین 37A اور 37B کا اطلاق چھوٹے تاجروں پر نہیں ہوگا۔ ان قوانین کا بنیادی مقصد جعلی انوائسز کی روک تھام ہے، نہ کہ کاروباری طبقے کو ہراساں کرنا۔
ادارے نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ کسی بڑے صنعتکار کو بھی ان قوانین کے تحت گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
مذاکرات میں مارکیٹوں میں کسٹمز چھاپوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا، جس پر فریقین نے آئندہ علیحدہ اجلاس میں ایک نیا میکنزم طے کرنے پر اتفاق کیا۔
اس کے علاوہ، موبائل فونز پر ٹیکس اصلاحات کے لیے بھی تاجروں سے مشاورت کی جائے گی تاکہ کسی فریق کو نقصان نہ ہو۔