کھٹمنڈو: نیپال کی حکومت نے ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد عوامی احتجاج کے بعد مظاہرین کے سامنے گٹھنے ٹیک دیئے۔
عالمی میڈیا کے مطابق نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہروں میں 19 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر عائد پابندی واپس لے لی گئی ہے۔
وزیرِ مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی پرتھوی سبھا گرُنگ نے منگل کی صبح اعلان کیا کہ فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز بحال کردیے گئے ہیں۔
یہ پابندی گزشتہ ہفتے ’’غلط معلومات، فراڈ اور نفرت انگیز مواد‘‘ روکنے کے لیے لگائی گئی تھی، تاہم اس کے خلاف بڑے پیمانے پر طلبہ اور نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جسے ’’جن زی پروٹسٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ مظاہرین نے کرپشن، معاشی بدحالی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف بھی نعرے بلند کیے۔
پیر کو کھٹمنڈو میں حالات سنگین ہوگئے جب مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس، واٹر کینن، ربڑ کی گولیاں اور براہِ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 17 افراد کھٹمنڈو میں جبکہ دو دیگر احتجاج کے دوران اٹہری شہر میں ہلاک ہوگئے۔
ملک بھر میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جبکہ بعض اندازوں کے مطابق یہ تعداد 400 تک ہے، جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق نے سیکیورٹی فورسز کے ’’ضرورت سے زیادہ طاقت‘‘ کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا اور جاں بحق افراد کے لواحقین کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔ یہ بدامنی نیپال میں دہائیوں بعد سامنے آنے والے شدید ترین بحرانوں میں شمار کی جارہی ہے۔