تنخواہ دار طبقے سے وابستہ افراد پر رواں مالی سال کے آغاز میں ہی ٹیکس کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، جولائی اور اگست 2025 کے دوران حکومت نے تنخواہ دار ملازمین سے 85 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں وصول کیے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔
2024 کے انہی دو مہینوں میں یہ رقم 70 ارب روپے تھی، یعنی صرف دو ماہ میں حکومت کو 15 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا۔ ایف بی آر کے مطابق، اس اضافے کی بنیادی وجہ تنخواہوں پر لگنے والے ٹیکس کی شرح میں حالیہ اضافہ اور کٹوتیوں کا سختی سے نفاذ ہے۔
تفصیلات کے مطابق، تنخواہ دار طبقے میں سے نان کارپورٹ ملازمین نے سب سے زیادہ یعنی 41 ارب روپے ادا کیے، جبکہ کارپورٹ سیکٹر سے 20 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا۔
صوبائی سرکاری ملازمین کی جانب سے 10.5 ارب روپے اور وفاقی ملازمین سے 7.6 ارب روپے کی وصولی ہوئی۔
حکومت کی جانب سے بڑے پنشنرز پر حالیہ نافذ کیے گئے انکم ٹیکس سے دو ماہ میں محض 18 کروڑ روپے حاصل ہو سکے، جو کہ متوقع ہدف سے کہیں کم ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق، یہ اقدام بظاہر علامتی رہا اور مالیاتی فرق کو پر کرنے میں مؤثر کردار ادا نہیں کر سکا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران تنخواہ دار طبقے سے مجموعی طور پر 555 ارب روپے انکم ٹیکس جمع ہوا، جو ایک سال میں 188 ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طبقہ مسلسل بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔
ادھر ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بھی دلچسپ تبدیلی دیکھی گئی۔ پلاٹوں کی فروخت پر انکم ٹیکس وصولی 92 فیصد بڑھ کر 28 ارب روپے ہو گئی، تاہم جائیداد کی خریداری پر ٹیکس وصولی 12 فیصد کمی کے ساتھ 13 ارب روپے رہ گئی۔
ماہرین کے مطابق، فروخت پر ٹیکس کی سخت نگرانی اور خریداری کی سست روی اس تبدیلی کی وجہ ہو سکتی ہے۔
تاہم ایف بی آر اپنے مجموعی ٹیکس اہداف کے حصول میں مشکلات کا شکار رہا۔ اگست میں 951 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا لیکن صرف 901 ارب روپے جمع ہو سکے، یوں 50 ارب روپے کا خسارہ ریکارڈ ہوا۔
اسی طرح جولائی اور اگست کا مجموعی ہدف 1698 ارب روپے تھا، مگر ایف بی آر صرف 1663 ارب روپے ہی اکٹھا کر سکا، جو کہ 35 ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔
یاد رہے، مالی سال 2025-26 میں ایف بی آر نے 14 ہزار 131 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کا بڑا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو یہ ہدف حاصل کرنا حکومت کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عوام پہلے ہی مہنگائی اور افراطِ زر کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔