افریقی ملک موزمبیق کے ساحل پر کئی ماہ سے پھنسے کارگو جہاز ‘گیس فالکن’ کے عملے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
جہاز پر موجود پاکستانی اور انڈونیشیئن عملے نے اپنے اپنے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کر کے انہیں نہ صرف وہاں سے نکالیں بلکہ کئی ماہ سے رکی ہوئی تنخواہیں بھی دلوائیں۔
یہ بحری جہاز کینیا کے ساحلی شہر ممباسہ سے ایل پی جی گیس لے کر زمبابوے جا رہا تھا اور راستے میں موزمبیق کی بندرگاہ بیئرا پر کچھ سامان اتارنا تھا۔ تاہم مالی بے ضابطگیوں اور فیول کی ادائیگیوں سے متعلق قانونی تنازعات کے باعث موزمبیق کی عدالت نے جہاز کو تحویل میں لے لیا۔
مزید پڑھیں: پاک بحریہ کا بروقت ایکشن، بھارتی طیارہ بردار بحری جہاز پسپا کر دیا گیا
چھ ماہ سے تنخواہیں بند، بجلی اور پانی ناپید
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے جہاز کے پاکستانی کپتان محمد اسلم نے بتایا کہ عملے کے تمام ارکان کے معاہدے ختم ہو چکے ہیں لیکن وہ موزمبیق کی میری ٹائم اتھارٹی کی تحویل میں ہونے کے باعث جہاز پر ہی رہنے پر مجبور ہیں۔
ان کے بقول، “ہمیں چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، بجلی نہ ہونے کے برابر ہے، پینے کا پانی ختم ہو رہا ہے، اور خوراک بھی محدود اور ناقص ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ جہاز کا ایئر کنڈیشنر خراب ہے اور شدید گرمی میں عملہ بری حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ “ہمارا حوصلہ جواب دے چکا ہے۔ اب ہمیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔”
مزید پڑھیں: پاکستان کا تاریخ میں پہلی بار 4 نئے بحری جہاز بیرون ملک سے آرڈر کرنے کا فیصلہ
کارگو فروخت ہونے تک ادائیگیوں کا امکان نہیں
کپتان اسلم کے مطابق، عدالت نے جہاز پر موجود کارگو کو اتارنے اور فروخت کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ اس رقم سے عملے کی تنخواہوں اور کمپنی کے واجبات کی ادائیگی کی جا سکے۔ تاہم کارگو کی فروخت میں رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں۔
جہاز پر اس وقت 12 افراد پر مشتمل کم از کم ضروری عملہ موجود ہے، جن میں تین پاکستانی اور نو انڈونیشیئن شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کمپنی نہ نیا عملہ بھیج رہی ہے، نہ پرانے کو واپس جانے دے رہی ہے۔ اسی باعث وہ قانونی طور پر جہاز چھوڑنے سے قاصر ہیں۔
مزید پڑھیں: یورپی خیراتی بحری جہاز نے 135 تارکین وطن کو بچا لیا
انسانی بحران کا خدشہ
انڈونیشیئن عملے کے رکن آندری پیلندینو نے بتایا کہ “ہم روزانہ کی بنیاد پر صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ نہ مناسب خوراک ہے، نہ دوا، اور نہ ہی بنیادی سہولیات۔ ہماری زندگیاں خطرے میں ہیں۔”
جہاز کے ایک اور پاکستانی رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “ہمارے بچے اسکول کی فیس نہیں دے پا رہے، کرائے باقی ہیں، اور گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آ چکی ہے۔”
سفارتی مداخلت ناگزیر
کپتان محمد اسلم کا کہنا ہے کہ “یہ مسئلہ اب انسانی ہمدردی کا ہے۔ ہم پاکستانی، انڈونیشیئن اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے جہاز ران اکثر ایسے تنازعات میں پھنس جاتے ہیں، جہاں ہمارے حقوق نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ ہماری حکومتیں فوری کارروائی کریں اور ہمیں اس جہنم سے نکالیں۔”