اسلام آباد: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، صحت اور وطن واپسی سے متعلق درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے احکامات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، جو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، حکومت اس رویے کی وضاحت دینے کی پابند ہے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے مطلوبہ رپورٹ مسلسل تاخیر کا شکار ہے، جس پر عدالت متعدد بار تنبیہ کر چکی ہے۔
جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا کہ اگر عدالت کے احکامات پر عمل نہ ہوا تو سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
جج نے کہا کہ میری چھٹیاں آج سے شروع ہونی تھیں لیکن میں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کیس دیگر اہم کیسز کے ساتھ آج ہی مقرر کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جمعرات کو اطلاع دی گئی کہ کاز لسٹ جاری نہیں کی جا رہی، جس پر میں نے چیف جسٹس کو درخواست بھیجنے کی ہدایت کی لیکن افسوس کہ اُس پر دستخط بھی نہ ہو سکے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے واضح کیا کہ عدالت کو انتظامی اختیارات کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں، اور یہ ایک الگ نوعیت کا معاملہ ہے، میں انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھاؤں گا۔
دورانِ سماعت وکیل عمران شفیق نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر حکومت واقعی سپریم کورٹ سے حکم امتناع لینا چاہتی تو اب تک بینچ بن چکا ہوتا لیکن ہمیں عدالتوں کے اندرونی نظام کا بخوبی علم ہے۔
جسٹس اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک یہ بات بھی واضح نہیں کہ سپریم کورٹ میں کیس کیوں مقرر نہیں ہو سکا، جس پر وکیل عمران شفیق نے کہا کہ ممکنہ وجہ جسٹس منصور علی شاہ کی موجودگی ہے اور جب تک بینچ میں تبدیلی نہیں ہوتی، کیس مقرر نہیں ہوگا۔
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی آئندہ سماعت سرکاری تعطیلات کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر مقرر کرتے ہوئے تمام فریقین کو وضاحت کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کردی۔