اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور ایس سی او چارٹرز کے مقاصد و اصولوں پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
وزیراعظم نے ایس سی او اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان تمام رکن ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور تصادم کے بجائے مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دیتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتا ہے۔ انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ خطے میں پائیدار امن و ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔
دہشت گردی اور غیر ملکی مداخلت پر مؤقف
خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی، بشمول ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے حالیہ حملوں میں غیر ملکی کردار کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جب کہ جعفر ایکسپریس واقعے میں بھی غیر ملکی مداخلت کے ثبوت دستیاب ہیں۔
فلسطین اور ایران پر حملوں کی مذمت
وزیراعظم نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فوجی حملے کی شدید مذمت کی اور فوری و غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا جب کہ انہوں نے ایران پر حملے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ایسے اقدامات خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔
افغانستان اور خطے کا استحکام
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہے اور بامعنی انگیجمنٹ وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے جامع اور منظم ڈائیلاگ ناگزیر ہے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ پاکستان کے معاشی منصوبے کے تین ستون ہیں: تجارتی توسیع، جدت اور ریونیو میں اضافہ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اسے خطے کے لیے ایک اہم تجارتی مرکز بناتی ہے جب کہ سی پیک علاقائی انضمام کا کلیدی منصوبہ ہے۔
ایس سی او اجلاس کی نمایاں کامیابیاں
دفتر خارجہ کے مطابق ایس سی او رکن ممالک نے ماسکو میں یونیورسل سینٹر اور دوشنبے میں اینٹی ڈرگ سینٹر قائم کرنے کے معاہدے کیے جب کہ 2035 تک ترقیاتی حکمت عملی کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں وزیراعظم نے لاؤس کو نئے ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر خوش آمدید کہا اور صدر شی جن پنگ کے گلوبل گورننس انیشی ایٹو کو سراہا۔
دفتر خارجہ نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کے موقع پر رکن ممالک کے صدور سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جن میں سیاسی، معاشی اور تجارتی تعلقات پر بات چیت ہوئی۔