قومی اسمبلی میں صحافیوں کے حقوق، سلامتی اور آزادیٔ اظہار کو مؤثر تحفظ فراہم کرنے کے لیے “جرنلسٹ پروٹیکشن ترمیمی بل” پیش کر دیا گیا، جسے مزید غور و خوض کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
بل میں صحافیوں، ان کے اہلِ خانہ، ذرائع اور آزادی اظہار کے لیے سخت قانونی تحفظات، سزاؤں، خصوصی عدالتوں اور ایک بااختیار خودمختار کمیشن کے قیام کی شقیں شامل کی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے “جرنلسٹ پروٹیکشن ترمیمی بل” 2025 میں صحافیوں اور ان سے وابستہ افراد کے جان و مال، پیشہ ورانہ آزادی اور اظہارِ رائے کے حق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اہم اور انقلابی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
بل میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں، ان کے اہلِ خانہ، قریبی رشتہ داروں اور ساتھیوں کو ان کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران مکمل تحفظ دیا جائے گا۔
بل کے متن کے مطابق کسی صحافی پر حملہ یا تشدد کرنے والے فرد کو 7 سال قید اور 3 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، ذرائع کے انکشاف پر دباؤ ڈالنے پر 3 سال قید اور 1 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
صحافی کے آزادانہ فرائض کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر 5 سال قید اور 1 لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے، کسی شخص کو معلومات افشا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکے گا، صحافی کو ذرائع کی رازداری کا مکمل قانونی حق حاصل ہوگا۔
بل کے تحت صحافیوں سے متعلق جرائم کی فوری سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت، اسلام آباد ہائی کورٹ اور صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے مشاورت کے بعد سیشن کورٹس قائم کرے گی۔
بل کے تحت ایک خودمختار “صحافیوں کے تحفظ کا کمیشن” قائم کیا جائے گا، جس کا چیئرمین ہائی کورٹ کا جج یا اس کے مساوی اہلیت رکھنے والا شخص ہوگا، جسے انسانی حقوق اور صحافیوں کے حقوق کے شعبے میں کم از کم 15 سال کا عملی تجربہ ہو۔
کمیشن صحافی، اس کے زیرِ کفالت افراد، ساتھیوں، اور قریبی رشتہ داروں کا تحفظ کرے گا، صحافی کی پراپرٹی، تنظیم یا سماجی تحریک کا تحفظ بھی کمیشن کی ذمہ داری ہو گی، کمیشن کے ہر رکن اور اسٹاف کو حکومت اور انتظامیہ سے آزاد حیثیت حاصل ہو گی۔
کمیشن کو شکایت کی صورت میں متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو فوری ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کا اختیار حاصل ہوگا، اور کیس کی تحقیقات فوجداری مقدمات کے مطابق ہوں گی۔
تاہم، کمیشن کو خفیہ ایجنسیوں کے اندرونی معاملات کی تحقیقات کا اختیار حاصل نہیں ہوگا، البتہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کی شکایت متعلقہ اتھارٹی کو بھیجی جائے گی۔
بل میں یہ بھی شامل ہے کہ شکایت کنندہ کی شناخت خفیہ رکھی جائے گی، تاکہ کسی بھی قسم کے دباؤ یا خطرے سے تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔