اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کے غزہ سٹی پر قبضے اور جنگ میں توسیع کے فیصلے کے بعد یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نے آئندہ اتوار کو ملک گیر عام ہڑتال کی کال دے دی اور خبردار کیا کہ یہ اقدام زندہ یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نے اتوار کو ملک گیر ہڑتال کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ احتجاج سکیورٹی کابینہ کے اس حالیہ فیصلے کے خلاف ہے جس کے تحت غزہ سٹی پر مکمل قبضے اور جنگ میں مزید شدت لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ہم ملک کو بند کر رہے ہیں تاکہ فوجیوں اور یرغمالیوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
یہ اعلان یرغمالیوں کے رشتہ داروں اور اکتوبر 7 کونسل کی جانب سے کیا گیا جو ان فوجیوں کے غمزدہ خاندانوں کی نمائندگی کرتی ہے جو جنگ کے آغاز میں مارے گئے تھے۔
منتظمین کے مطابق یہ اقدام ابتدا میں نجی کمپنیوں اور شہریوں کی جانب سے بطور عوامی تحریک شروع ہوگا، جنہوں نے اتوار کو کام بند کر کے معیشت کو روکنے کا اعلان کیا ہے۔
چند گھنٹوں میں ہی سینکڑوں کمپنیوں اور ہزاروں شہریوں نے ہڑتال میں شرکت کا عندیہ دے دیا۔ تاہم، اسرائیل کی سب سے بڑی مزدور یونین ہستدروت نے ابھی تک اس ہڑتال میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا۔
اہلِ خانہ کا وفد پیر کو یونین چیئرمین آرنون بار-ڈیوڈ سے ملاقات کر کے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔
اناط انگریسٹ جو اپنے بیٹے ماتان کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں نے صنعت اور محنت کے شعبوں کے رہنماؤں سے کہا کہ آپ کی خاموشی ہمارے بچوں کو مار رہی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ دل سے ہمدردی کافی نہیں، خاموشی موت ہے، آپ کے پاس طاقت ہے کہ آپ تبدیلی لا سکیں۔
یاد رہے کہ ہستدروت نے گزشتہ سال بھی یرغمالیوں کے اہلِ خانہ کی حمایت میں ملک گیر ہڑتال کی تھی، تاہم حکومت نے اس اقدام کو سیاسی قرار دے کر لیبر کورٹ کے ذریعے روک دیا تھا۔
اس بار اسرائیلی اپوزیشن رہنماؤں نے اس ہڑتال کی کھل کر حمایت کی ہے۔ اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے کہا کہ یہ مطالبہ درست اور بروقت ہے۔
ڈیموکریٹس پارٹی کے چیئرمین یائیر گولان نے بھی عوام سے اپیل کی کہ زندگی اور باہمی ذمہ داری کو عزیز رکھنے والے تمام شہری ہڑتال میں شریک ہوں، سڑکوں پر نکلیں اور مزاحمت کریں۔
ادھر سکیورٹی کابینہ کے جنگ میں توسیع کے فیصلے کو یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ میں موجود 50 یرغمالیوں میں سے 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے، اور نیا فوجی آپریشن ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔