برطانوی دارالحکومت لندن میں پولیس نے ہفتے کے روز پارلیمنٹ اسکوائر پر ہونے والے فلسطین ایکشن کے حق میں مظاہرے سے 466 افراد کو گرفتار کر لیا۔
عالمی میڈیا کے مطابق ان گرفتاریوں کو شہر کی تاریخ کا “سب سے بڑا اجتماعی گرفتاری کا واقعہ” قرار دیا جارہا ہے۔ مظاہرین برطانیہ کی جانب سے جولائی میں فلسطین ایکشن کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے اور اس پر پابندی کے فیصلے کے خلاف جمع ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: غزہ سٹی کے فلسطینیوں کا انخلا سے انکار، عالمی سطح پر اسرائیلی منصوبے کی مذمت
شرکاء نے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے خلاف اور فلسطینی عوام سے یکجہتی کے نعرے لگائے، جبکہ ان کے ہاتھوں میں “میں نسل کشی کے خلاف ہوں، میں فلسطین ایکشن کی حمایت کرتا ہوں” جیسے پیغامات والے پلے کارڈز تھے۔
سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز میں مظاہرین کو زمین پر بیٹھے اور پولیس اہلکاروں کو انہیں ہٹاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتاریوں کی بڑی تعداد صرف فلسطین ایکشن کی حمایت ظاہر کرنے پر کی گئی، جبکہ چند افراد کو پولیس اہلکاروں پر حملے سمیت دیگر الزامات میں بھی حراست میں لیا گیا۔
مزید پڑھیں: ’’پرچم نہیں لہرایا کیونکہ وہ چھین لیا جاتا‘‘، اطالوی پارلیمنٹ میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی
ناقدین نے اس پابندی کو آزادی اظہار اور حقِ احتجاج پر قدغن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد اسرائیل مخالف مظاہروں کو دبانا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل یوکے نے پرامن مظاہرین کی گرفتاری کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، جبکہ متعدد ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی اس اقدام کو “جبر آمیز” قرار دے کر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب برطانوی حکومت کا مؤقف ہے کہ فلسطین ایکشن پر پابندی قومی سلامتی کے تقاضوں اور انسداد دہشت گردی کی مشاورت کے بعد لگائی گئی۔
لندن کی ہائی کورٹ نے فلسطین ایکشن کی شریک بانی ہدیٰ اموری کو اس فیصلے کے خلاف عدالتی نظرثانی کی اجازت دے دی ہے، تاہم مکمل سماعت 2025 کے آخر تک متوقع ہے۔