اسلام آباد: بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کو آج چھ سال مکمل ہو گئے۔
اس موقع پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان بھر میں یومِ استحصال کشمیر بھرپور جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے، تاہم دن کا آغاز صبح 10 بجے ایک منٹ کی خاموشی سے ہوا جبکہ ملک بھر میں ریلیوں، سیمینارز اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے عالمی برادری کی توجہ ایک بار پھر مقبوضہ وادی میں بھارت کے نوآبادیاتی ایجنڈے کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیری عوام اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے اپنے حقِ خودارادیت کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔
بھارت نے 5 اگست 2019 کو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت چھین لی تھی، جس کے بعد سے وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شدت اختیار کر چکی ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق گزشتہ 6 برسوں میں بھارتی فورسز نے 1,100 سے زائد رہائشی املاک نذرِ آتش کیں جبکہ 21,000 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں بند کر دیا گیا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کرفیو اور پابندیوں نے کشمیری عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
بے روزگاری اور غربت کی خطرناک صورتحال
بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔
حالیہ سروے کے مطابق وادی میں بے روزگاری کی شرح 23.09 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ غربت کی شرح 49 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
معاشی بدحالی کے باعث کشمیری نوجوان مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2019 کے بعد سے عائد کی گئی سخت پابندیاں آج بھی برقرار ہیں، جنہوں نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
عوام کا مودی سرکار کے خلاف احتجاج
مسلسل جبر، معاشی بدحالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مقبوضہ وادی کے عوام مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور منصفانہ حل خطے میں امن کے لیے ناگزیر ہے۔