فلسطینی اتھارٹی نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی محاصرے اور بمباری کے باعث غزہ میں انسانی المیہ سنگین ترین صورت اختیار کر گیا ہے، جہاں 40 ہزار نوزائیدہ بچے موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
اتھارٹی کے مطابق 2 سال سے کم عمر کے ایک لاکھ بچے شدید غذائی قلت اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث فوری موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیل کی جانب سے ملسط کردہ قحط کی تصویری کہانی
بچوں کے لیے درکار دودھ اور غذائی سپلیمنٹس مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں، جبکہ مائیں مجبوراً بچوں کو پانی پلانے پر مجبور ہیں۔
یہ نسل کشی ہے، دنیا خاموش کیوں ہے؟”
فلسطینی اتھارٹی نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرے۔
اتھارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پر راشن روک کر بچوں کو بھوکا مار رہا ہے۔ یہ اجتماعی قتل ہے، یہ نسل کشی کے سوا کچھ نہیں۔
مزید پڑھیں: 109 امدادی اداروں کی غزہ میں اجتماعی قحط کی وارننگ، عالمی اداروں سے مداخلت کی اپیل
24 گھنٹوں میں 100 سے زائد فضائی حملے
بین الاقوامی خبر ایجنسیوں کے مطابق اسرائیلی افواج نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں 100 سے زائد فضائی بم حملے کیے، جبکہ زمینی جارحیت بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔
خان یونس میں اسرائیلی 36ویں ڈویژن نے کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جس کے نتیجے میں مزید شہری ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی بربریت
مزید پڑھیں: بچوں کو محصور کرنا اوربھوکا رکھنا جنگ نہیں،چینی صدرکاغزہ میں قحط پربڑابیان
فلسطینی اتھارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہودی آبادکاروں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھروں پر حملے تیز کر دیے ہیں، جن میں گھروں کو آگ لگانا، جانور چوری کرنا اور فصلیں تباہ کرنا شامل ہے۔
عالمی ضمیر کی آزمائش
فلسطینی اتھارٹی نے اس بگڑتی صورتحال کو “عالمی ضمیر کے لیے ایک آزمائش” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دنیا اب بھی خاموش رہی تو انسانیت کا جنازہ نکل جائے گا۔
“یہ وقت بیان بازی کا نہیں، فوری کارروائی کا ہے۔”