ارجنٹائن کے صدر خاویر میلی کی کفایت شعاری پالیسی سے سیکڑوں شاعر، مصور اور سائنسدان متاثر، معمولی کام کرنے پر مجبور ہوگئے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے سائنسی تحقیق کے بجٹ میں شدید کٹوتی کے بعد سائنسدان اور ماہرین معاشی تنگی کے باعث ہوٹلوں، دکانوں اور نجی اداروں میں ہیلپر یا جز وقتی کام کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: ارجنٹائن؛ شدید گرمی کے باعث جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی
رپورٹ کے مطابق صدر میلی نے سائنس اور تعلیم کے شعبوں میں غیر معمولی اخراجات بند کر دیے ہیں۔ اس سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، جن میں ادیب، شاعر، محقق اور سائنسدان شامل ہیں، معمولی اجرت پر کام کرنے لگے ہیں۔
یہ حالات ارجنٹائن کے علمی اور سائنسی مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیے جا رہے ہیں، جب کہ کئی ماہرین بیرون ملک ہجرت پر غور کر رہے ہیں۔
قومی سائنسی کونسل سمیت متعدد اداروں میں سائنسدانوں کی تنخواہیں کم ہو چکی ہیں، جس سے ان کی خریداری قوت تقریباً 30–35 فیصد گھٹ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: موچاچوس : ارجنٹائن کے لیے ورلڈ کپ کا ترانہ
ارجنٹینا کے معروف جینیاتی سائنسدان لیونارڈو اماریلا 12 سے 13 گھنٹے تک اوبر چلانے پر مجبور ہیں، کئی نے تحقیق چھوڑ دی یا تعلیمی شعبے کا رخ کیا، جیسا کہ والیریا جو ہائی اسکول میں بایولوجی پڑھارہی ہیں۔
ارجنٹینا کی حکومت نےCONICET اور دیگر سائنسی اداروں سے تقریباً 4,000 سے زائد ملازمین کو نکال دیا ہے، اس کے علاوہ سائنسی تنخواہیں تقریباً ایک تہائی تک گھٹ چکی ہیں۔
مزید پڑھیں: میسی کیساتھ 10 سال پہلے تصویر کھنچوانے والے بچے نے ارجنٹائن کو فائنل میں پہنچادیا
اس طرح ریاست کی جانب سے تحقیق و ترقی میں کی جانے والی سرمایہ کاری 2025 میں جی ڈی پی کے تناسب سے 0.15% فیصد تک گر گئی ہے، جو گزشتہ 50 سال کی کم ترین سطح ہے۔
ارجنٹائن کی موجودہ مالیاتی سخت پالیسیاں سائنسدانوں کو نہ صرف تحقیق چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہیں بلکہ انہیں ذاتی مددگار، اوبرڈرائیور جیسے کام کرنے پر مجبور کر ہی ہے۔ اس سے ملک کا تحقیقی مستقبل، سائنسی خودانحصاری اور ترقی کو بڑا دھچکا پہنچ رہا ہے۔