دریائے چناب کا سیلابی ریلا سیالکوٹ، وزیرآباد اور چنیوٹ میں نقصان پہنچانے کے بعد جھنگ اور شجاع آباد میں داخل ہوگیا جہاں 320 دیہات زیرِ آب آگئے ہیں۔
بول نیوز کے مطابق پنجاب کے دریاؤں میں سیلابی کیفیت برقرار ہے اور پانی کی سطح مسلسل بلند رہنے کے باعث کئی اضلاع میں تباہی پھیل رہی ہے۔ پنجاب میں سیلاب کے باعث ہونے والے مختلف حادثات اور واقعات میں اب تک 30 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ لاکھوں شہری متاثر ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: دریائے سندھ میں منگل، بدھ کی رات سیلاب کا خدشہ، 16 لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ
دریائے چناب کا سیلابی ریلا سیالکوٹ، وزیرآباد اور چنیوٹ میں نقصان پہنچانے کے بعد جھنگ میں داخل ہوگیا جہاں 180 دیہات زیرِ آب آگئے۔ کھڑی فصلیں تباہ اور رابطہ سڑکیں ڈوب گئیں۔ متاثرین کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے، تاہم متاثرہ خواتین اور بچوں نے کھلے آسمان تلے رات گزاری اور اشیائے خورونوش کی شدید قلت کی شکایت کی۔
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق دریائے چناب میں ہیڈ خانکی اور قادرآباد پر اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ خانکی پر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 29 ہزار کیوسک جبکہ قادرآباد پر 2 لاکھ 3 ہزار کیوسک ہے۔ ہیڈ تریموں پر بہاؤ بڑھ کر 2 لاکھ 49 ہزار کیوسک تک پہنچ گیا۔
ملتان میں بھی دریائے چناب کی صورتحال تشویشناک ہے۔ کمشنر ملتان عامر کریم کے مطابق پیر کو تقریباً 8 لاکھ کیوسک پانی گزرنے کا خدشہ ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہیڈ محمد والا پر حفاظتی شگاف ڈالا جائے گا، جس کی گنجائش 10 لاکھ کیوسک ہے۔ شجاع آباد میں 140 دیہات کی فصلیں متاثر ہو چکی ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں سیلابی صورتحال سنگین، 15 لاکھ سے زائد افراد متاثر، 30 افراد جاں بحق
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 53 ہزار کیوسک اور ہیڈ سلیمانکی پر ایک لاکھ 54 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کئی دیہات تاحال زیرآب ہیں اور بہاولنگر کے متاثرین گھروں سے نکلنے سے انکار کر رہے ہیں۔
دریائے راوی میں بلوکی ہیڈ ورکس پر بھی انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، جہاں بہاؤ کم ہو کر 2 لاکھ 11 ہزار کیوسک ہوا مگر خطرہ برقرار ہے۔ نارووال اور ننکانہ صاحب میں بند ٹوٹنے سے پانی بستیوں میں داخل ہوگیا۔
ضلعی انتظامیہ نے پاک پتن اور عارف والا میں صورتحال کے پیش نظر یکم ستمبر سے تمام اسکول تاحکم ثانی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں شہروں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور متاثرین کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات تک پہنچایا جا رہا ہے۔
پنجاب بھر میں اب تک 15 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، فصلیں اور مویشی بہہ گئے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔