امریکی محکمہ صحت نے ملک میں پہلی بار ایک خطرناک پیراسائٹ ’’نیو ورلڈ سکریو‘‘ ورم کے کیس کی تصدیق کی ہے۔ یہ وہ کیڑا ہے جو جانوروں کے ساتھ ساتھ بعض اوقات انسانوں کے گوشت کو بھی کھا جاتا ہے۔
حکام کے مطابق یہ کیڑا ایل سلواڈور سے امریکا آنے والے ایک مریض میں پایا گیا۔ سی ڈی سی نے 4 اگست کو اس کیس کی تصدیق کی تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ مریض صحت یاب ہوچکا ہے اور اس کے ذریعے کسی دوسرے شخص میں بیماری منتقل ہونے کے شواہد نہیں ملے۔
کیسا ہوتا ہے یہ کیڑا؟
امریکی ادارہ اینیمل اینڈ پلانٹ ہیلتھ انسپکشن سروس کے مطابق یہ کیڑا عام مکھی سے کچھ بڑا ہوتا ہے جس کا جسم سبز اور آنکھیں نارنجی رنگ کی جبکہ پشت پر تین سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔
سکریو ورم زیادہ تر مویشیوں، پالتو جانوروں اور جنگلی حیات کو متاثر کرتا ہے مگر بعض نایاب صورتوں میں انسان بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
حملہ کیسے کرتا ہے؟
مادہ مکھیاں کھلے زخموں میں سیکڑوں انڈے دیتی ہیں جن سے نکلنے والے کیڑے جاندار کے گوشت کو کھانا شروع کردیتے ہیں اور اپنے نوکیلے منہ زخم میں گاڑھ دیتے ہیں۔ اگر علاج بروقت نہ کیا جائے تو یہ انفیکشن جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
انسانوں پر اثرات
ماہرین کے مطابق یہ کیڑا شاذ و نادر ہی انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔ ایک سابق مریض نے علامات بتاتے ہوئے کہا کہ چند گھنٹوں میں چہرہ سوج گیا، ہونٹ پھول گئے، ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا اور بات کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔
علاج کیا ہے؟
اس انفیکشن کا بنیادی علاج یہ ہے کہ متاثرہ زخم سے لاروا کو فوری طور پر نکال کر جراثیم سے پاک کیا جائے۔ بروقت علاج سے مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
ماضی میں وبائیں
سکریو ورم پہلی بار 1930 کی دہائی میں امریکا کے جنوبی علاقوں میں سامنے آیا تھا اور 1960 تک بڑے پیمانے پر کنٹرول کرلیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے بڑی تعداد میں جراثیم سے پاک نر مکھیوں کو فضا میں چھوڑا تاکہ افزائش روکی جاسکے۔
تاہم 2023 میں یہ بیماری پانامہ سے وسطی امریکا اور پھر میکسیکو تک پھیل گئی۔ جولائی میں امریکی سرحد کے قریب کیس سامنے آنے کے بعد مویشیوں کی تجارت پر بھی اثر پڑا۔
کیا امریکا کے عوام کو خطرہ ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال امریکا کے عام شہریوں کو اس بیماری سے براہ راست بڑا خطرہ نہیں ہے، مگر مویشیوں کی صنعت اور دونوں ممالک کے درمیان 100 ارب ڈالر کی تجارت متاثر ہوسکتی ہے۔