اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک حکام نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کے لیے 7.8 ارب ڈالر مارکیٹ سے خریدے۔
ڈاکٹر عنایت حسین کے مطابق حکومت نے دسمبر تک ساڑھے 15 ارب ڈالر اور جون تک ساڑھے 17 ارب ڈالر تک ذخائر بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ جولائی میں ہی حکومت نے مارکیٹ سے 72 کروڑ ڈالر خریدے ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کے دوران 3.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ لگایا ہے جو حکومتی ہدف 4.2 فیصد سے کم ہے۔ حکام کے مطابق اپریل سے جون کے دوران مہنگائی میں ہدف سے زیادہ اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر اس وقت تین ماہ کے درآمدی بل سے بھی کم ہیں، اگر ذخائر مزید کم ہوئے تو روپے کی قدر پر دباؤ بڑھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں درست مقام پر ہے، نہ کمزور ہے نہ زیادہ۔
ڈاکٹر عنایت حسین نے مزید کہا کہ اگر روپے کی قدر بڑھی تو درآمدات مہنگی ہوں گی جس سے ذخائر پر دباؤ آئے گا۔ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا ایک فیصد رہنے کا خدشہ ہے جبکہ ترسیلات زر کا حجم 40 ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔
اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ترسیلات زر کے لیے 200 ڈالر کی ہر ٹرانزیکشن پر بینکوں کو 20 ریال فراہم کرنے کی اسکیم ختم کرنے سے ترسیلات میں کمی دیکھنے میں آئی۔