غزہ میں موجود ایک امریکی ڈاکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج امداد لینے کے لیے امدادی مراکز پر آنے والے فلسطینیوں کو منصوبہ بندی سے نشانہ بنا رہی ہے۔
قطری میڈیا کے مطابق امریکی ماہر اطفال ڈاکٹر احمد یوسف نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں غذائی امداد کے امریکی حمایت یافتہ مراکز (GHF) پر آنے والے فلسطینی نوجوانوں اور لڑکوں کو اسرائیلی فوج خاص جسمانی حصوں کو نشانہ بنا کر زخمی اور قتل کر رہی ہے، اور یہ کارروائیاں مخصوص دنوں میں ایک واضح پیٹرن کے تحت کی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں: حماس کمانڈریا ذمے دارصحافی اور شفیق باپ!غزہ میں شہیدانس الشریف کون تھا؟
اردن کے دارالحکومت عمان سے قطری خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ وہ ڈھائی ہفتے تک غزہ میں واقع الاقصیٰ اسپتال (دیر البلح) اور الشفاء اسپتال (غزہ شہر) میں کام کرتے رہے، جہاں انہوں نے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر زخمیوں کی آمد دیکھی۔
ان کے مطابق بعض دنوں میں تمام زخمیوں کو ٹانگوں، پیلوک ایریا یا کمر کے نچلے حصے میں گولیاں لگتی تھیں، اگلے دن چھاتی یا اوپری جسم کو نشانہ بنایا جاتا، اور پھر کسی دن صرف سر یا گردن پر گولیاں ماری جاتیں۔
مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی بمباری، الجزیرہ کے معروف صحافی انس الشریف سمیت پانچ میڈیا ورکر شہید
انہوں نے کہا، “ایسا لگتا تھا جیسے بندوق کے پیچھے بیٹھا شخص اس دن یہ طے کرتا ہو کہ لوگوں کو کس طرح اپاہج یا قتل کرنا ہے۔”
ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ یہ حملے عمر کی قید سے آزاد تھے اور زیادہ تر نشانہ بننے والے لڑکے اور نوجوان مرد تھے، جو اپنے خاندان کے لیے آٹے کے چھوٹے تھیلے اٹھا کر کئی کلومیٹر کا سفر کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات لوگ مرکز کے قریب یا واپس جاتے ہوئے بھی گولیوں کا نشانہ بنتے۔
اعداد و شمار کے مطابق، مئی کے آخر میں GHF کے قیام کے بعد سے اب تک کم از کم 1,838 فلسطینی امداد لینے کے دوران مارے جا چکے ہیں جبکہ 13,409 زخمی ہوئے ہیں۔ صرف منگل کو 19 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں بھوک کا بحران مزید سنگین، 100 بچے بھوک سے جاں بحق
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز اور ہیومن رائٹس واچ نے ان کارروائیوں کو “منظم قتل، غیر انسانی سلوک” اور “جنگی جرائم” قرار دیا ہے۔ اسرائیل نے بعض مواقع پر گولی چلانے کا اعتراف کیا ہے لیکن شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔
ڈاکٹر یوسف نے غزہ کو “موت کا پنجرہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے روزانہ ایک مقررہ تعداد میں لوگوں کو قتل کرنے کا کوٹہ طے ہو۔
ان کے مطابق، جب غذائی امداد کے ٹرک زیادہ داخل ہوتے ہیں، اور لوگ امدادی مراکز پر کم آتے ہیں تو فضائی بمباری میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس میں خواتین، بچے اور بزرگ بھی نشانہ بنتے ہیں۔
انہوں نے اسرائیل پر طبی سامان اور بچوں کے لیے دودھ کی پاؤڈر تک غزہ لے جانے کی اجازت نہ دینے کا الزام لگایا، جس کے باعث وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کئی مریضوں کو وہ علاج فراہم نہ کر سکے جو کسی اور ماحول میں ممکن ہوتا۔
یہ بیان غزہ میں جاری انسانی المیے اور اسرائیلی کارروائیوں کے نئے پہلو کو اجاگر کرتا ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔