اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنشن کے معاملے میں طلاق یافتہ بیٹی کے حق سے متعلق ایک اہم فیصلہ جاری کردیا ہے، تاہم عدالت نے واضح کیا کہ پنشن کسی سرکاری ملازم کی خیرات یا بخشش نہیں بلکہ اس کا آئینی و قانونی حق ہے، جو اس کے اہل خانہ کو منتقل ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تاخیر جرم کے زمرے میں آتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے تحریر کردہ 10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بیٹی کو پنشن کی ادائیگی اس کی شادی یا طلاق کی حیثیت پر نہیں بلکہ اس کے قانونی حق کی بنیاد پر کی جائے گی، طلاق کب ہوئی، والد کی وفات سے پہلے یا بعد یہ بات غیر متعلقہ ہے۔
فیصلے میں سندھ حکومت کے اس سرکلر کو بھی غیر آئینی اور امتیازی قرار دے کر کالعدم کر دیا گیا، جس کے مطابق صرف وہی بیٹی پنشن کی حقدار ہو سکتی تھی جو والد کی وفات کے وقت طلاق یافتہ ہو۔
عدالت نے کہا کہ یہ شرط آئین کے آرٹیکل 9 (زندگی کا حق)، 14 (عزت کا حق)، 25 (برابری کا حق) اور 27 (ملازمت میں امتیاز کے خلاف تحفظ) کی صریح خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بینچ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کر دی۔ کیس میں درخواست گزار سورۃ فاطمہ نامی طلاق یافتہ خاتون تھیں، جنہوں نے اپنے مرحوم والد کی پنشن دوبارہ شروع کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
فیصلے میں عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان آج بھی صنفی مساوات کے عالمی اشاریے میں 148 ممالک میں سے 148ویں نمبر پر ہے، حالانکہ ملک نے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ خواتین کی پنشن کا انحصار صرف مالی ضرورت یا ازدواجی حیثیت پر نہیں بلکہ ان کے بنیادی آئینی اور انسانی حقوق پر ہونا چاہیے، عورتوں کو مالی طور پر غیر خودمختار تصور کرنا آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔