نیپال میں سوشل میڈیا پر حکومت کی جانب سے عائد کی گئی پابندی کے خلاف نوجوانوں کا احتجاج شدت اختیار کرگیا ہے اور پرتشدد واقعات میں 14 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
مظاہرے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے مائتیگھرا علاقے میں شروع ہوئے، جہاں ہزاروں نوجوانوں نے اسکول اور کالج کے یونیفارمز میں سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
احتجاج کا انعقاد ہامی نیپال نامی سماجی تنظیم نے کیا، جو 2015 میں قائم ہوئی تھی اور جس کا بنیادی مقصد قانون کی بالادستی، شفافیت اور انصاف ہے۔
مظاہرین نے بڑھتی ہوئی کرپشن اور حکومت کی بدعنوانیوں کے خلاف بھی غم و غصہ ظاہر کیا، خاص طور پر سیاستدانوں کے بچوں کی شاہانہ زندگیوں کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے عوامی ناراضگی کو مزید بڑھایا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے لیکن اس کا حساب کتاب نہیں دیا جاتا۔
احتجاج اس وقت شدت اختیار کرگیا جب کچھ مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔
جھڑپوں میں 14 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے، جنہیں مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ زخمیوں میں سے کچھ کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔
نیپال کی حکومت نے حال ہی میں فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، یوٹیوب اور دیگر 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کردی تھی، جس سے تقریباً 90 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومت نے ان پلیٹ فارمز کو مقامی نمائندہ مقرر کرنے کی مہلت دی تھی، مگر بیشتر پلیٹ فارمز نے حکومتی احکامات پر عمل نہیں کیا جس کے نتیجے میں پابندیاں لگائی گئیں۔