فلمی دنیا کو لازوال گیتوں سے مالا مال کرنے والے معروف شاعر، نغمہ نگار اور رائٹر احمد راہی کو مداحوں سے بچھڑے آج 23 برس بیت گئے، مگر ان کے تخلیق کردہ سدا بہار نغمے آج بھی سننے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا، وہ 13 نومبر 1923ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور 1940ء میں لاہور منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے ادبی و فلمی سفر کا آغاز کیا، ان کی پہلی فلم “بیلی” تھی، تاہم شہرت انہیں فلم “چھومنتر” کے مقبول گیتوں سے حاصل ہوئی۔
احمد راہی نے پنجابی فلم “ہیر رانجھا” کے لیے جو نغمے تخلیق کیے، وہ آج بھی لوک ورثے کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے دیگر یادگار فلمی منصوبوں میں “یکے والی، مرزا جٹ، مہندی والے ہتھ، نکی جئی ہاں” شامل ہیں، ان کے تحریر کردہ نغمے اور مکالمے اپنی زبان، سادگی اور جذباتی اثر انگیزی کی وجہ سے آج بھی دلوں کو چھو لیتے ہیں۔
احمد راہی کو ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، نگار ایوارڈ اور بولان ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فلمی گیتوں کے علاوہ انہوں نے بے شمار لوک گیت بھی تخلیق کیے جو آج بھی پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں مقبول ہیں، خاص طور پر فلم “باجی” کی غزل “دل کے افسانے” ان کی شاعری کی اعلیٰ مثال ہے۔
احمد راہی نے نہ صرف فلمی دنیا بلکہ اردو اور پنجابی ادب میں بھی گہرا اثر چھوڑا، وہ 2 ستمبر 2002ء کو لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے لیکن ان کا فن آج بھی زندہ ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔