امریکہ نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرنے پر اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (UNESCO) سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ یونیسکو کے اینٹی اسرائیل بیانیے کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یونیسکو کی پالیسی امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہے، امریکا دسمبر 2026 میں باضابطہ طور پر یونیسکو سے الگ ہوجائے گا۔
مزید پڑھیں: یونیسکو نے موئنجودڑو میں ادھوری چھوڑی گئی کھدائی پچاس سال بعد دوبارہ شروع کردی
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو کی رکنیت امریکہ کے قومی مفاد میں نہیں، اور اس کا مشن “تقسیم پیدا کرنے والا” ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کو رکنیت دینا اور اسرائیل کے خلاف مبینہ تعصب اس فیصلے کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔
ٹیمی بروس نے مزید کہا کہ فلسطین کو ایک رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرنا امریکی پالیسی کے خلاف ہے اور اس سے ادارے میں اینٹی اسرائیل بیانیے کو فروغ ملا ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان نے 14 لاکھ لڑکیوں کو ثانوی تعلیم سے محروم کر دیا، یونیسکو
ٹرمپ انتظامیہ نے یونیسکو کے پائیدار ترقی کے اہداف (جن میں غربت میں کمی، صنفی مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا شامل ہے) کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں “عالمگیریت پسند نظریاتی ایجنڈا” قرار دیا۔
اسرائیل کی جانب سے فیصلے کا خیرمقدم
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار نے سوشل میڈیا پر امریکہ کے اس فیصلے کو “انصاف کی جانب ایک ضروری قدم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے نظام میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ختم ہونا چاہیے۔ امریکی قیادت اور اخلاقی حمایت پر شکریہ۔
مزید پڑھیں: یونیسکو نے اٹلی کے شہر وینس کو بڑا خطرہ قرار دے دیا
یونیسکو کا ردعمل:
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری ازولے نے امریکی فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:یونیسکو کا مقصد دنیا کی تمام اقوام کا خیرمقدم کرنا ہے، اور امریکہ کو ہمیشہ خوش آمدید کہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی نجی شعبہ، تعلیمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھا جائے گا، اور عملے میں کسی قسم کی کمی کا امکان نہیں کیونکہ امریکی فنڈنگ ادارے کے بجٹ کا صرف 8 فیصد ہے۔
مزید پڑھیں: فرانسیسی قوم کی پائیدار علامتوں میں سے ایک، فرانسیسی بیگیٹ کو یونیسکو کے ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے
پہلے بھی علیحدگی، پھر واپسی – اب پھر علیحدگی
یہ دوسرا موقع ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو یونیسکو سے الگ کیا ہے۔ پہلی بار 2018 میں ایسا کیا گیا تھا، اسی دعوے کے ساتھ کہ ادارہ اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے۔
2023 میں صدر جو بائیڈن نے امریکہ کو دوبارہ یونیسکو میں شامل کر دیا تھا، لیکن جنوری 2025 میں ٹرمپ کے دوسری بار صدر بننے کے بعد کئی بین الاقوامی اداروں سے امریکہ کی علیحدگی شروع ہو گئی ہے۔
مزید پڑھیں: یونیسکونے عراق کے تاریخی مقام ’بابل‘ کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دے دیا
ٹرمپ حکومت نے پہلے ہی عالمی ادارہ صحت (WHO) کی امداد بند کی ہے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی فنڈنگ روک دی، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے ججوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
غزہ جنگ اور امریکی حمایت
یہ فیصلے ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب غزہ میں اسرائیل کے حملوں کے باعث 59,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ان کارروائیوں کو “نسل کشی سے ہم آہنگ” قرار دیا ہے۔
عالمی ادارے بھوک، قحط اور ادویات کی کمی پر مسلسل انتباہ جاری کر رہے ہیں، لیکن امریکہ اسرائیل کی فوجی مہم کی غیر مشروط حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے سربراہ ٹیڈروس گیبریئس نے خبردار کیا کہ ہمیں کسی رسمی قحط کے اعلان کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، جب لوگ بھوکے، بیمار اور مر رہے ہوں۔