امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو یوکرین کے معاملے پر سخت پیغام دیا ہے، جسے مبصرین ایک بالواسطہ وارننگ قرار دے رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ماسکو کے اگلے اقدامات سے واشنگٹن ناخوش ہوا تو “آپ دیکھیں گے کہ چیزیں ہوں گی”۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں پوتن سے بات کریں گے، تاہم روسی صدر پہلے ہی جانتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ کا مؤقف کیا ہے۔ پوتن کے لیے کوئی خاص پیغام نہیں، وہ جانتے ہیں میں کہاں کھڑا ہوں۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے، اور اگر ہمیں وہ فیصلہ پسند نہ آیا تو آپ دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ نے روس ، چین اور شمالی کوریا کے خلاف نیا پینڈورہ بکس کھول دیا
پوتن نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ یوکرینی صدر ولودیمیر زیلینسکی سے ماسکو میں ملاقات پر آمادہ ہیں۔ ان کے بقول، صدر ٹرمپ نے مجھ سے اس ملاقات کی درخواست کی تھی، میں نے کہا ممکن ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مذاکرات سے نتائج نہ نکلے تو ماسکو اپنے مقاصد فوجی ذرائع سے حاصل کرے گا۔
یوکرینی وزیرِ خارجہ آندری سیبیہا نے پوتن کے بیان کو ’’غیرسنجیدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سات ممالک نے زیلینسکی اور پوتن کے درمیان ملاقات کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ ان کے مطابق صرف عالمی دباؤ ہی روس کو امن مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ بنا سکتا ہے۔
ٹرمپ نے پوتن اور زیلینسکی کے درمیان براہِ راست ملاقات کی تجویز دی ہے، مگر ماسکو اور کییف کے درمیان امن معاہدے کی شرائط پر بڑا اختلاف برقرار ہے۔ روس کا مؤقف ہے کہ کسی بھی ڈیل میں 2022 کے بعد ضم کیے گئے چار خطے شامل ہوں، جبکہ یوکرین کسی بھی علاقے سے دستبرداری کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا کا وینزویلا کی کشتی پر حملہ، 11 ہلاک، منشیات اسمگلرز تھے، ٹرمپ کا دعویٰ
زیلینسکی نے کہا ہے کہ وہ جمعرات کو ٹرمپ سے بات کریں گے تاکہ روس پر نئی پابندیوں کے لیے دباؤ بڑھایا جائے۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے عندیہ دیا ہے کہ یورپی ممالک یوکرین کو سلامتی کی ضمانت دینے پر تیار ہیں، جو امن معاہدے کے دن فعال ہوں گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق جمعرات کو پہلے زیلینسکی ’’کولیشن آف دی ولنگ‘‘ ممالک کے اجلاس میں شریک ہوں گے، اس کے بعد ان کی ٹرمپ سے گفتگو متوقع ہے، اور پھر ٹرمپ پوتن سے رابطہ کریں گے۔ یہ سلسلہ مستقبل کے ممکنہ امن اقدامات کا تعین کرے گا۔