متاثرین کو مہنگائی، بدبو اور صفائی کے شدید مسائل کا سامنا، نکاسی کا مؤثر انتظام نہ ہونے پر عوام سراپا سوال
حالیہ شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب کے بعد مینگورہ شہر کے باسی ایک نئی آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں آدھا شہر پہلے ہی پانی میں ڈوبا ہوا تھا، اب گھروں، بازاروں، سڑکوں اور گلیوں میں جمع کیچڑ اور گارے نے معمولات زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔
متاثرہ شہریوں کے مطابق، بارش تھمنے کے بعد اگرچہ پانی کی سطح کم ہو چکی ہے، لیکن دلدل نما کیچڑ کی صورت میں ایک نیا بحران سر اٹھا چکا ہے۔
گھروں سے کیچڑ نکالنے کے لیے درکار بنیادی اوزار بیلچے، ٹوکریاں، بالٹیاں یا تو دستیاب نہیں یا ان کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔
ایک مقامی رہائشی نے سوال اٹھایا کہ اب سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ گارا اور کیچڑ گھروں سے کیسے نکالیں؟ اور اگر نکال بھی لیں تو اسے کہاں پھینکیں؟
شہر کے کئی محلے، خاص طور پر نچلے علاقوں میں، تاحال کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں۔ مکانات میں بدبو، گھٹن اور نمی سے سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ صفائی کا عملہ ناکافی ہے اور دستیاب وسائل اس قدر وسیع آلودگی سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔
شہریوں نے شکایت کی کہ صفائی کے لیے خود کام کرنے پر مجبور ہیں، مگر نہ سامان میسر ہے نہ کوئی تربیت یا رہنمائی۔
ایک مقامی بزرگ شہری نے بتایا کہ محلے کی چند گلیاں اور گھر ایسے لگتے ہیں جیسے کسی قیامت کی باقیات ہوں، ہر طرف گارا، پانی، تباہی اور بدبو ہے۔
حکومتی ادارے، امدادی تنظیمیں اور مقامی رضا کار کیچڑ کی صفائی کے لیے سرگرم ضرور ہیں، لیکن کیچڑ کی مقدار اور دائرہ اتنا وسیع ہے کہ مکمل بحالی میں کافی وقت درکار ہوگا۔
متاثرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر صفائی کے آلات مفت یا سبسڈی پر فراہم کیے جائیں، عارضی نکاسی کا نظام قائم کیا جائے، اور گارا و کیچڑ کو ٹھکانے لگانے کے لیے متبادل مقامات مختص کیے جائیں۔