اسلام آباد: سینیٹ نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 کو کثرت رائے سے منظور کر لیا، تاہم اپوزیشن ارکان نے بل کی منظوری کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔
اجلاس کی صدارت ڈپٹی چیئرمین سیدالناصر نے کی، جس میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بل پیش کیا۔
اپوزیشن ارکان نے اس بل کو آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل میں ترامیم کی تجویز دی اور اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی درخواست کی، تاہم ان کی ترامیم مسترد کر دی گئیں۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بل کی مخالفت کا مطلب دہشتگردوں کی حمایت نہیں بلکہ یہ آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اور نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قانون میں پہلے بھی ترامیم کی گئی ہیں اور اس ترمیم کے تحت ملزم کو وکیل کا حق دیا جائے گا، کسی کو لاپتہ نہیں کیا جائے گا اور حفاظتی تحویل کا دورانیہ 90 روز تک محدود ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اگر وفاقی وزیر قانون کی بریفنگ میڈیا کو دی جاتی تو بہت سے سوالات ختم ہو جاتے۔
انہوں نے اپوزیشن پر قانون سازی میں تعاون نہ کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف یہ بل لازمی منظور کرنا ہوگا کیونکہ ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اور انصاف آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔
اجلاس میں پیٹرولیم ترمیمی بل بھی متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، جسے وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک نے پیش کیا۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے ارکان اس اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔