امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی الاسکا میں ہونے والی مختصر ملاقات یوکرین میں جنگ بندی کے کسی معاہدے کے بغیر ختم ہوگئی.
تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس اجلاس نے پیوٹن کو مغرب میں ایک سفارتی کامیابی ضرور فراہم کی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق جمعے کو انکوریج میں امریکی فضائی اڈے پر پیوٹن کو سرخ قالین اور ٹرمپ کے گرمجوش مصافحے کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا۔ یہ پیوٹن کا فروری 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد پہلی بار مغربی سرزمین پر قدم رکھنا تھا۔
بند دروازوں کے پیچھے تقریباً تین گھنٹے جاری رہنے والی بات چیت کے بعد دونوں رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کسی معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں اور صحافیوں کے سوالات بھی قبول نہیں کیے۔
مزید پڑھیں: بھارت کے سر پر مزید امریکی ٹیرف کی لٹکتی تلوار ، ٹرمپ کس چیز کے منتظر؟
پیوٹن نے ملاقات کو طویل عرصے سے زیر التواء قرار دیا اور کہا کہ فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت سے امن کی طرف پیش رفت کی امید ہے۔ انہوں نے مغربی دارالحکومتوں کو تنبیہ کی کہ وہ کسی پس پردہ چال کے ذریعے اس پیش رفت کو سبوتاژ نہ کریں۔
صدر ٹرمپ نے پیوٹن کی باتوں کو انتہائی معنی خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیشتر نکات پر اتفاق ہوگیا ہے مگر چند بڑے معاملات ابھی حل طلب ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی نیٹو اتحادیوں اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو بریف کریں گے۔
یوکرین سے فوری ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم یوکرینی اپوزیشن رہنما اولیکسی ہونچارینکو نے ٹیلیگرام پر کہا: “ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن نے مزید وقت خرید لیا ہے۔ نہ جنگ بندی ہوئی اور نہ ہی کشیدگی میں کمی۔”
پریس کانفرنس کے اختتام پر ٹرمپ نے پیوٹن کو دوبارہ ملاقات کی پیشکش کی جس پر پیوٹن نے مسکراتے ہوئے کہا: “اگلی بار، ماسکو میں۔” ٹرمپ نے جواب دیا کہ “اس پر مجھے تنقید کا سامنا ہوسکتا ہے، لیکن یہ ممکن ہے۔