پاکستانی کرکٹ ٹیم ایک اور مایوس کن کارکردگی کے بعد ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہو گئی، جس کے بعد شائقین و ماہرین نے کرکٹ کے مستقبل پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ کرکٹ کی یہ گراوٹ قومی کھیل ہاکی جیسے زوال پذیر راستے کی جانب ایک اور قدم محسوس ہو رہی ہے۔
تین میچوں کی سیریز کے تیسرے اور فیصلہ کن میچ میں پاکستان کو 202 رنز کے بڑے مارجن سے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ 295 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پوری ٹیم صرف 92 رنز پر پویلین لوٹ گئی، جو ایک روزہ کرکٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی شکست بن گئی۔
ویسٹ انڈیز کی جانب سے وکٹ کیپر بلے باز شے ہوپ نے شاندار بلے بازی کرتے ہوئے ناقابل شکست 120 رنز بنائے، جب کہ فاسٹ بولر جیڈن سیلس نے صرف 18 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کر کے پاکستانی بیٹنگ لائن کو تباہ کر دیا۔
پاکستان کے پانچ بلے باز — جن میں کپتان محمد رضوان، صائم ایوب، اور عبداللہ شفیق شامل تھے — کھاتہ کھولے بغیر واپس لوٹ گئے۔ دیگر نمایاں ناکام کھلاڑیوں میں بابر اعظم (9)، حسن نواز (13) اور حسین طلعت (1) شامل رہے۔
یہ ویسٹ انڈیز کی پاکستان کے خلاف 34 برس بعد پہلی ون ڈے سیریز فتح ہے۔ اس سے قبل کیریبیئن ٹیم نے آخری بار 1991 میں گرین شرٹس کو سیریز میں شکست دی تھی۔
پاکستان کے وائٹ بال ہیڈ کوچ مائیک ہیسن نے شکست کا سبب غیر مستحکم ٹاپ آرڈر اور ڈیتھ اوورز کی ناقص بولنگ کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کامیابی کے لیے اعلیٰ معیار کے اوپننگ بیٹرز اور ڈیتھ میں بہتر بولنگ کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے ون ڈے میں جیت کا موقع تھا، مگر ٹیم اس سے فائدہ نہ اٹھا سکی۔ تیسرے میچ میں ابتدائی 35 اوورز تک بولنگ بہتر رہی، مگر بعد میں پلان بی پر عمل درآمد میں ناکامی نظر آئی۔
ہیسن نے تسلیم کیا کہ بولرز نے کچھ معیاری یارکرز کیے، لیکن کئی ایسی گیندیں بھی پھینکیں جن پر ویسٹ انڈین بلے بازوں نے آسانی سے باؤنڈری حاصل کی۔
کپتان محمد رضوان نے میچ کے بعد کہا کہ ہم جانتے تھے کہ ایک ہی پچ پر مسلسل تین میچز ہو رہے ہیں، اس لیے بولرز نے ابتدا میں اچھا آغاز دیا۔ ہمارا ہدف ویسٹ انڈیز کو 220 تک محدود کرنا تھا، لیکن شائے ہوپ کی غیر معمولی بیٹنگ نے سب کچھ بدل دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا تھا کہ ابرار احمد کو بعد میں لائیں گے، لیکن ویسٹ انڈیز کی جارحانہ بیٹنگ نے ہمیں موقع ہی نہ دیا۔
سیریز میں حسن نواز کے ڈیبیو کو کوچ نے سراہا اور حسین طلعت کی کارکردگی کو بھی مثبت قرار دیا۔ کوچ کے مطابق تینوں میچز میں اسپنرز نے متاثر کن کارکردگی دکھائی، جو آئندہ میچز کے لیے امید کی کرن ہیں۔