چین کی گوانگ ڈونگ صوبے میں چِکن گونیا وائرس کے 7,000 سے زائد کیسز رپورٹ ہونے کے بعد عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
فوشان شہر اس وقت وائرس کا مرکز بن چکا ہے جہاں کورونا طرز کی سخت پابندیاں نافذ کر دی گئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق متاثرہ مریضوں کو اسپتالوں میں داخل کرکے مچھر دانیوں میں بند کیا جا رہا ہے، اور انہیں صرف منفی ٹیسٹ یا سات دن مکمل ہونے پر ہی چھٹی دی جاتی ہے۔
چِکن گونیا ایک مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والا وائرس ہے جو شدید بخار اور جوڑوں کے ایسے درد کا سبب بنتا ہے جو بعض اوقات مہینوں یا سالوں تک برقرار رہتا ہے۔
چین میں یہ وائرس نایاب سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ جنوبی علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
صرف گزشتہ ہفتے میں 3,000 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ ہانگ کانگ میں بھی پہلا کیس سامنے آ گیا ہے — ایک 12 سالہ بچہ جو فوشان کا سفر کر کے واپس آیا تھا۔
حکام نے گھروں میں پانی جمع ہونے والے تمام مقامات کو صاف کرنے کا حکم دے دیا ہے چاہے وہ گملے ہوں، بوتلیں یا کافی مشینیں۔ عمل نہ کرنے پر 10,000 یوان (تقریباً 4 لاکھ پاکستانی روپے) تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکام نے مچھر مارنے کے لیے ہاتھی مچھر (giant elephant mosquitoes) چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، جو چھوٹے، وائرس پھیلانے والے مچھروں کو کھا جاتے ہیں۔ فوشان کی جھیلوں میں 5,000 مچھر خور مچھلیاں بھی چھوڑ دی گئی ہیں۔
فوشان میں اب ڈرونز کے ذریعے کھڑے پانی کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے تاکہ وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر عوام نے ان اقدامات کو کورونا لاک ڈاؤن جیسا قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکا نے چین جانے والے مسافروں کو زیادہ احتیاط برتنے کی ہدایت جاری کی ہے، جس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ تمام کیسز ابھی تک معمولی نوعیت کے ہیں، اور 95 فیصد مریض سات دن میں صحتیاب ہو رہے ہیں، لیکن وائرس کا رفتار سے پھیلنا اور حکام کے سخت ردعمل نے ایک بار پھر چین میں عالمی وبا جیسے خدشات کو جنم دے دیا ہے۔