اسرائیلی بمباری اور محاصرے کا شکار غزہ میں جہاں عام شہری قحط اور غذائی قلت سے نبرد آزما ہیں، وہیں علاقے کے صحافی بھی شدید فاقہ کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔
عالمی میڈیا کو زمینی حقائق سے آگاہ کرنے والے یہ صحافی اب خود بھوک اور کمزوری کی حالت میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایک مقامی رپورٹر نے اپنی حالت بیان کرتے ہوئے کہا: “میں زیادہ دیر کام نہیں کر پاتا کیونکہ مجھے چکر آنے لگتے ہیں، جسم میں توانائی نہیں رہی۔”۔
ان کا کہنا تھا کہ خوراک کی شدید قلت نے نہ صرف جسمانی طاقت سلب کر لی ہے بلکہ صحافتی ذمہ داریاں نبھانا بھی مشکل بنا دیا ہے۔
غزہ کے صحافیوں کو دوہری اذیت کا سامنا
ایک جانب جنگ کے خطرات، بمباری اور گرفتاریوں کا خوف، تو دوسری جانب بھوک اور جسمانی کمزوری۔ علاقے میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث یہ صحافی شدید ذہنی دباؤ اور جسمانی مشقت کے باوجود دنیا کو غزہ کی اصل تصویر دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فیلڈ رپورٹرز کا کہنا ہے کہ خوراک اور طبی سہولیات کی عدم موجودگی میں وہ شدید تھکن، کمزوری اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال نے ان کی کام کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر محاصرے میں پھنسے لوگوں کی آواز بنے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ میں صحافیوں کو درپیش صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “غزہ میں صحافی نہ صرف اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں بلکہ وہ اس انسانی بحران کے زندہ گواہ اور دستاویزی محافظ بھی ہیں۔”