چین اور روس نے جاپان کے سمندر (Sea of Japan) میں تین روزہ مشترکہ بحری مشقوں “Joint Sea-2025” کا آغاز کر دیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ مشقیں روسی بندرگاہ ولاڈی ووستوک کے قریب پانیوں میں جاری ہیں، جن کا مقصد دونوں ممالک کے دفاعی اتحاد کو مزید مستحکم کرنا اور امریکہ کی قیادت میں عالمی نظام کے توازن کو چیلنج کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی روس کو سخت نتائج کی دھمکی؛ جنگ بندی کی مہلت میں بھی مزید کمی
چین کی وزارت دفاع کے مطابق مشقوں میں آبدوزوں کی بچاؤ کاروائیاں (submarine rescue)، مشترکہ آبدوز شکن آپریشنز، فضائی دفاع، میزائل شکن دفاعی مشقیں اور سمندری جنگی کارروائیاں شامل ہیں۔
چین کی جانب سے چار بحری جہاز، جن میں گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائرز “Shaoxing” اور “Urumqi” شامل ہیں، جبکہ روس کی پیسفک فلیٹ کے بحری جہاز بھی ان مشقوں کا حصہ ہیں۔
مشترکہ مشقوں کے بعد چین اور روس بحرالکاہل (Pacific Ocean) کے “متعلقہ پانیوں” میں مشترکہ بحری گشت (Naval Patrols) بھی انجام دیں گے۔ دونوں ممالک نے 2012 سے ہر سال “Joint Sea” کے عنوان سے مشقیں شروع کی تھیں، اور پچھلے سال یہ مشقیں چین کے جنوبی ساحل کے قریب منعقد ہوئی تھیں۔
مزید پڑھیں: 4 اسرائیلی طیارے تباہ کرنے والے 4 ملکوں کے مشترکہ ہیروسیف الاعظم کون ہیں؟
روس کی پیسفک فلیٹ کے مطابق یہ مشقیں “دفاعی نوعیت” کی ہیں اور کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہیں۔ تاہم، جاپان کی وزارت دفاع نے اپنی حالیہ رپورٹ میں چین اور روس کی بڑھتی ہوئی فوجی قربت کو خطے کے لیے “سنجیدہ سیکیورٹی خطرہ” قرار دیا ہے۔
چین کی وزارت دفاع نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ مشقیں دونوں ممالک کے “جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید گہرا کرنے” کے لیے ہیں۔ بیجنگ نے اب تک روس کے یوکرین پر حملے کی نہ مذمت کی ہے اور نہ ہی روسی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔
مغربی ممالک اور امریکہ کا الزام ہے کہ چین بالواسطہ طور پر ماسکو کی حمایت کر رہا ہے۔
یورپی رہنماؤں نے حالیہ ہفتوں میں چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روس پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے، لیکن بیجنگ نے خود کو “غیر جانبدار” قرار دیتے ہوئے مغربی ممالک پر یوکرین کو اسلحہ فراہم کر کے جنگ کو طول دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق چین اور روس کی اس عسکری قربت کا مطلب ایشیا پیسفک خطے میں طاقت کے توازن کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہے، جس کے براہِ راست اثرات امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر مرتب ہوں گے۔