یومیہ پلاسٹک کے کتنے ذرات جسم میں داخل ہوتے ہیں، ماہرین کا حیران کن انکشاف

پلاسٹک کو اس صدی کی سب سے بدترین ایجاد کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا، جس نے پورے خطہ ارض اور اس میں موجود ہر جاندار کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کو اس وقت جن بڑے چیلنج کا سامنا ہے ان میں پلاسٹک کی آلودگی سرفہرست ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک عام انسان روزانہ مائیکرواسکوپک یعنی آنکھ سے نظر نہ آنے والے پلاسٹک کے 68,000 ذرات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل کر رہا ہے، جو گزشتہ اندازوں سے 100 گنا زیادہ ہے، یہ مائیکروپلاسٹک ہر جگہ یہاں تک کہ گھروں اور گاڑیوں کے اندر سانس لینے والی ہوا میں بھی موجود ہیں۔

فرانس سے تعلق رکھنے والی تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ذرات بے حد چھوٹے ہیں آنکھ سے دیکھے نہیں جاسکتے اور آسانی سے سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پینے کے پانی سے مائیکروپلاسٹک دور کرنے کا نہایت آسان طریقہ دریافت

محققین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کی جانے والی تحقیق میں روزانہ سانس کے ذریعے لیے جانے والے مائیکروپلاسٹکس کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا تھا، لیکن وہ بڑے ذرات  یعنی 20 سے 200 مائیکرو میٹر قطر کے تھے۔ تاہم اس تحقیق میں محققین نے اور بھی چھوٹے ذرات کا تجزیہ کیا جو انسانی بال سے بھی چھوٹے یعنی 1 سے 10 مائیکرو میٹر قطر کے تھے، اتنی چھوٹی جسامت رکھنے کی وجہ سے یہ ذرات پھیپھڑوں کے اندر گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔

فرانسیسی ٹیم نے اپنے اپارٹمنٹس اور گاڑیوں کی ہوا کے 16 نمونوں میں مائیکروپلاسٹکس کی مقدار کو جدید آلات سے ناپا، انہوں نے پایا کہ اپارٹمنٹس میں سانس لینے والی ہوا میں فی مکعب میٹر اوسطاً 528 مائیکروپلاسٹک ذرات پائے جاتے ہیں، جبکہ گاڑی کے اندر یہ تعداد 2,238 فی مکعب میٹر تھی، جو عام ڈرائیونگ کی حالت میں ناپی گئی۔

ان ذرات میں سے زیادہ تر 94 فیصد  بہت چھوٹے یعنی 1 سے 10 مائیکرو میٹر قطر کے درمیان تھے،  ٹیم نے اندازہ لگایا کہ لوگ روزانہ 3,200 بڑے (10 سے 300 مائیکرو میٹر قطر کے) اور 68,000 چھوٹے (1 سے 10 مائیکرو میٹر) مائیکروپلاسٹک ذرات سانس کے ذریعے اندر لیتے ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہ مائیکروپلاسٹکس کتنے نقصان دہ  ہیں۔

تاہم، ایک اور مطالعہ جو اپریل میں شکاگو میں امریکن کالج آف کارڈیالوجی کی میٹنگ میں پیش کیا گیا، اس میں کلیولینڈ کے کیس ویسٹرن ریزرو اسکول آف میڈیسن کے محققین نے بتایا کہ امریکہ کے ساحلی یا جھیل کے قریب کے علاقوں میں جہاں ماحول میں مائیکروپلاسٹکس کی مقدار زیادہ ہے، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور فالج کی شرح زیادہ ہے۔

Related posts

انڈونیشیا میں قیامت خیز سیلاب، 2 جزیرے صفحہ ہستی سے مٹنے لگے، 19 افراد ہلاک

مون سون ختم ہونے والا ہے،ہزاروں دیہات زیرآب،900 افراد جاں بحق ہوئے،چیئرمین این ڈی ایم اے

آئی ایم ایف کیساتھ دوسرے اقتصادی جائزہ کیلئے شیڈول طے پا گیا