اسرائیل نام نہاد بلوچ تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، عرب میڈیا

عرب میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں جاری نام نہاد بلوچ تحریک دراصل اسرائیل کی پشت پناہی سے چلائی جارہی ہے۔

میڈیا میں شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے نام نہاد بلوچ قومی تحریک کو اپنے جیوپولیٹیکل (جغرافیائی سیاسی) مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ایک کوشش منظرِ عام پر آئی ہے۔

مزید پڑھیں: دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کے وحشیانہ حملے کی حقیقت کا پردہ فاش

عرب میڈیا کے مطابق 12 جون کو واشنگٹن کے ایک اسرائیل نواز تھنک ٹینک، “مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ (MEMRI)” نے “بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ (BSP)” کے آغاز کا اعلان کیا۔

بظاہر تحقیقاتی پروجیکٹ کی شکل میں پیش کیے گئے اس منصوبے کا مقصد بلوچستان کی قدرتی دولت جن میں تیل، گیس، یورینیم، تانبہ، کوئلہ، اور گوادر و چابہار کی گہرے پانیوں کی بندرگاہیں شامل ہیں پر عالمی توجہ مرکوز کرنا ہے۔

تاہم، MEMRI کے بانی کرنل ییگال کارمن، جو دو دہائیوں تک اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس میں خدمات انجام دے چکے ہیں، کی موجودگی اور اس ادارے کا اسرائیل نواز مؤقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پروجیکٹ محض ایک علمی تحقیق نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک اقدام ہے۔

مزید پڑھیں: دہشتگرد تنظیم بی ایل اے کی جانب سے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر بلوچوں پر ایک بار پھر بزدلانہ وار

MEMRI کی ویب سائٹ پر دی گئی وضاحت میں بلوچ خطے کو ایران اور پاکستان کے خلاف “مثالی اڈہ” قرار دیا گیا ہے، جہاں سے ایران کی جوہری پالیسی اور پاک-ایران تعلقات کو قابو میں رکھنے کی بات کی گئی ہے۔

اس منصوبے میں ایک نام نہاد بلوچ اسکالر “میر یار بلوچ” کو بھی شامل کیا گیا ہے، جنہوں نے حال ہی میں X (سابقہ ٹوئٹر) پر بلوچستان کی آزادی کا یکطرفہ اعلان کیا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بلوچ قوم کی حمایت کا دعویٰ کیا۔

بھارت-اسرائیل اتحاد کی جھلک

یہ منصوبہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان قائم اسٹریٹیجک شراکت داری کا بھی عکاس ہے۔ بھارتی میڈیا میر یار بلوچ کو غیر معمولی کوریج دیتا رہا ہے، اور ان کے بیانات زیادہ تر بھارتی ناظرین کے لیے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: دہشتگرد تنظیم بی ایل اے کی ملکی اداروں کو بدنام کرنے کی ایک اور سازش بے نقاب

اس سے واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد بلوچ تحریک عوامی مزاحمت کے بجائے اسرائیل کا ایک اسٹریٹیجک ہتھیار ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بلوچ تحریک کی حمایت دراصل فلسطینی مزاحمت اور دیگر بے ریاست اقوام کے درمیان یکجہتی کو کمزور کرنے کی ایک چال بھی ہو سکتی ہے۔

جیسے عراق میں کردوں کے اسرائیل کے ساتھ نرم تعلقات نے فلسطینیوں کے لیے مشکلات پیدا کیں، ویسے ہی بلوچ تحریک کا اسرائیل یا بھارت کے ساتھ کھڑا ہونا طویل المیعاد نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بے ریاست اقوام کو اپنی آزادی کی جدوجہد میں جغرافیائی سیاست سے زیادہ اصولی بین الاقوامی یکجہتی پر انحصار کرنا چاہیے۔

وقتی مفاد کی بنیاد پر دشمن کے دشمن کو دوست بنانا اکثر ان تحریکوں کو ان کی اصل روح سے محروم کر دیتا ہے۔

یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک نام نہاد بلوچ تحریک کو اپنے نوآبادیاتی، تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف بلوچ عوام کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، بلکہ فلسطین کی جدوجہد آزادی کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

Related posts

عبد اللہ بن زید اور مصر کے وزیر خارجہ نے بات چیت کی – متحدہ عرب امارات

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر قطر روانہ، امیر قطر سے اہم ملاقات متوقع

پاکستان کے بڑے ڈیمز میں پانی کی سطح میں نمایاں اضافہ، کئی ڈیمز مکمل بھر گئے