غزہ پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کئے گئے قحط کی تصویری کہانی سامنے آگئی ہے، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
غزہ پر ہونے والے اسرائیلی مظالم سے جہاں پوری دنیا شدید غم و غصے کے شکار ہے، وہی عالمی برادری نے بے حسی کی سنگین چادر تان رکھی ہے، جس سے غزہ میں انسانی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔
100 سے زائد بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر خوراک کی کمی سے خبردار کرتے ہوئے بین الاقوامی دُنیا پر زور دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے فوری اقدامات کریں۔
ایک فلسطینی خاتون غذا کی کمی سے ڈھانچہ بنتے اپنے بچے کو بہلانے کی کوشش کر رہی ہے۔
غزہ میں ایک دکاندار نے عالمی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ میں اور میرے بچے ہر رات بھوکے سوتے ہیں اور غزہ میں تمام لوگوں کو اسی صورحال کا سامنا ہے۔
خواتین اپنے برتن اٹھائے خوراک کی تلاش میں دربدر پھر رہی ہیں، جبکہ اوپر سے اوسرائیلی فائرنگ کا خطرہ بھی موجود ہے۔
سیلا باربخ، جو کہ صرف 11 ماہ کی ہے، شدید غذائی قلت کا شکار ہو کر خان یونس کے ناصر اسپتال میں داخل ہے۔ اسپتال کے عملے کے مطابق علاقے میں جاری بمباری اور محاصرے کے باعث خوراک اور طبی سہولیات کی شدید قلت ہے۔
سیلا کی والدہ نجاح نے بتایا کہ وہ کئی ہفتوں سے اپنے بچوں کو مناسب خوراک مہیا نہیں کر پا رہیں۔ “نہ دودھ ہے، نہ کھانا — بس بھوک ہے اور خوف”
14 سالہ فلسطینی لڑکا، مصعب الدبس، جو کہ ڈاکٹروں کے مطابق غذائی قلت کا شکار ہے، 22 جولائی 2025 کو غزہ شہر کے الشفاء اسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا ہے۔
غذائی قلت کا شکار دو سالہ فلسطینی بچہ “یزان” 23 جولائی 2025 کو غزہ شہر کے مغرب میں واقع الشاطی پناہ گزین کیمپ میں اپنے تباہ حال گھر میں بھائیوں کے ساتھ بیٹھا ہے۔