جاٹ زات کے نائب بھارتی صدر جگدیپ دھنکڑ جنہیں مودی “کسان کا بیٹا “ کہۂ کر پکارتے تھے، بالآخر استعفی دینے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔
نائب بھارتی صدر جگدیپ دھنکڑ کا اچانک استعفیٰ محض “طبی وجوہات” نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اندرونی حلقوں میں جاری طاقت کی رسہ کشی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: بنگالی مسلمان روہنگیا نہیں! بی جے پی کی نئی سازش پر بھارت میں طوفان؛ ممتا بینرجی کا احتجاج
ایک کسان کے بیٹے سے لے کر بھارت کے دوسرے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے والے دھنکڑ نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی پارٹیوں کا رخ کیا، جنتا دل سے کانگریس اور بالآخر بی جے پی میں آ کر نریندر مودی کی پالیسیوں کی کھلے عام حمایت کی۔ لیکن آخری لمحے میں اُن کی وفاداری بھی اُنہیں بچا نہ سکی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق دھنکڑ کا استعفیٰ دراصل ایک “پاور ری شفل” کا حصہ ہے۔ اس وقت کئی اہم لیڈران اس اہم عہدے کی دوڑ میں ہیں ، جس میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے نائب صدر کی آئینی طاقت سب سے اہم ہے۔
مزید پڑھیں: امیت شاہ غنڈہ اور قاتل ہے، بی جے پی سینئر رہنما سبرامنیئن سوامی کا انکشاف
اگر کوئی ایسا نائب صدر منتخب ہو جائے جو پارٹی لائن سے ہٹ کر سوچے، اور بی جے پی کے بل روک دے تو آنے والے برسوں میں قانون سازی کے عمل کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
منوج سنہا کا بڑھتا ہوا کردار:
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا، جنہوں نے پہلگام واقعے کے بعد سیکیورٹی کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کی، اس وقت سیاسی دباؤ میں ہیں۔ وہ بی جے پی میں ایک سینئر اور آزمودہ رہنما سمجھے جاتے ہیں، اور بطور سابق ریلوے وزیر اُن کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔
مزید پڑھیں: لائیو ٹاک شو میں ترجمان بی جے پی نے مغلظات بک دیں،فتنۃ الہندکی حمایت گلے پڑگئی
منہوج سنہا اتر پردیش کے اعلیٰ ذات کے لیڈر ہیں، اور یہی بات انہیں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا سیاسی حریف بھی بناتی ہیں۔
وزیر اعلی یوگی نہیں چاہتے کہ سنہا یوپی کی سیاست میں واپس آئیں، ایسے میں نائب صدر کی سیٹ اُنہیں “آرام دہ مگر بااثر” مقام دے سکتی ہے۔ لیکن کیا یہی اصل وجہ ہے کہ دھنکڑ کو سبکدوش کیا گیا؟
طاقت کی جنگ کا اشارہ:
اب جے پی نڈا، راجناتھ سنگھ، نتیش کمار اور خود یوگی آدتیہ ناتھ جیسے بڑے نام اس سیٹ پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ اگر سنہا کو نائب صدر بنا دیا جاتا ہے، تو یوگی سے ان کی طاقت میں برابری بلکہ برتری ممکن ہے۔ اس سے پارٹی کے اندرونی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: مودی کا پردہ فاش، بی جے پی رہنما کا دھماکے دار انکشاف، پاکستان نے ہمارے 5 طیارے گرائے، ویڈیو دیکھیں
عوام کے سوالات:
دھنکڑ کو صرف 75 سال کی عمر اور دل کی تکلیف کی بنیاد پر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا؟ تو کیا یہی اصول وزیراعظم مودی پر لاگو ہوگا، جو آئندہ سال 75 سال کے ہو جائیں گے؟ کیا بی جے پی “عمر” کو سیاسی صفائی کا آلہ بنا رہی ہے؟
یہ صرف ایک استعفیٰ نہیں بلکہ ایک خاموش سیاسی معرکہ ہے۔ نائب صدر کا عہدہ بی جے پی کے مستقبل کے سیاسی توازن کو متعین کرے گا، فی الحال بی جے پی کی سیاست اگلے کچھ ماہ غیر متوازن اور ڈانواڈول لگ رہی ہے۔