پاور ڈویژن کے ماتحت بجلی کی 8 بڑی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے 244 ارب روپے کی اووربلنگ کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈٹ رپورٹ 2023-24 کے مطابق، یہ مالی بے ضابطگیاں ادارہ جاتی سطح پر کی گئیں جن سے گھریلو صارفین، زرعی ٹیوب ویلز یہاں تک کہ وفات پا جانے والے افراد بھی متاثر ہوئے۔
آڈٹ دستاویزات کے مطابق، اووربلنگ میں ملوث اداروں میں آئیسکو، لیسکو، ہیسکو، میپکو، پیسکو، کیسکو، سیپکو اور ٹیسکو شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) نے مردہ افراد کے نام پر 4 کروڑ 96 لاکھ روپے کے بل جاری کیے۔ بعض کیسز میں استعمال شدہ یونٹس صفر ہونے کے باوجود 12 لاکھ 21 ہزار سے زائد یونٹس بل میں ڈالے گئے۔
رپورٹ کے مطابق، بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے لائن لاسز، بجلی چوری اور ناقص کارکردگی چھپانے کے لیے صارفین پر اضافی بوجھ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی۔
صرف ایک ماہ میں پانچ کمپنیوں نے 2 لاکھ 78 ہزار سے زائد صارفین کو 47 ارب 81 کروڑ روپے کے اضافی بل بھیجے۔
سال 2023-24 کے دوران مجموعی طور پر 90 کروڑ 46 لاکھ یونٹس کی اووربلنگ کی گئی۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ متعلقہ افسران کیخلاف تاحال کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
کیسکو کی جانب سے زرعی ٹیوب ویلز کو 148 ارب روپے سے زائد کی اووربلنگ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ رقم کمپنی نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی غرض سے صارفین پر منتقل کی۔
اس کے علاوہ، 10 ڈسکوز کی جانب سے 1432 فیڈرز پر 18 ارب 64 کروڑ روپے کا اضافی بل بھیجا گیا، لیکن آڈٹ حکام کی جانب سے متعدد بار ریکارڈ طلب کیے جانے کے باوجود فراہم نہیں کیا گیا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق، غلط ریڈنگ کی بنیاد پر صارفین کو 5 ارب 29 کروڑ روپے کی اووربلنگ کی واپسی کی گئی۔
پیسکو نے صارفین کو 2.18 ارب روپے کی ملٹی کریڈٹ ایڈجسٹمنٹ فراہم کی، جبکہ بعض کمپنیوں نے دعویٰ کیا کہ صارفین کو اربوں روپے واپس کیے گئے ہیں، مگر آڈٹ حکام نے ان دعووں کی تصدیق کے لیے مزید دستاویزات طلب کر لی ہیں۔
آڈٹ ٹیم نے تمام 8 تقسیم کار کمپنیوں سے اس سنگین مالی بے ضابطگی پر فوری وضاحت طلب کر لی ہے۔ قومی خزانے اور صارفین دونوں کو نقصان پہنچانے والے اس اسکینڈل کے بعد ممکنہ طور پر نیب یا دیگر تحقیقاتی اداروں کی مداخلت متوقع ہے۔