تحریک انصاف نے ایک بار پھر یوٹرن لیتے ہوئے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا، اپنے ہی اراکین کے خلاف ن لیگ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سے مدد مانگ لی۔
تحریک انصاف کو سینیٹ الیکشن میں بدترین گروپنگ، ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تمام اراکین ایک دوسرے پر ووٹوں کی خرید و فروخت، بلیک میلنگ اور دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سینیٹ الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کو شدید دھچکا
ایسے میں تحریک انصاف کی قیات نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کا تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں 21 جولائی کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں معاہدہ طے پایا ہے۔
مزید پڑھیں: صنم جاوید کو سینیٹ الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا تحریری فیصلہ
تاہم پی ٹی آئی کے ناراض امیدواروں کی جانب سے کاغذات واپس نہ لینے پر انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ اور اراکین اسمبلی کی جانب سے پارٹی پالیسی کے خلاف دوسرے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
خیبرپختونخوا میں 21 جولائی کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن نے امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرانے کا معاہدہ کیا جس کے تحت 6 نشستیں حکومت اور پانچ اپوزیشن کو ملیں گی۔
تاہم عرفان سلیم سمیت پی ٹی آئی کے ناراض امیدواروں کی جانب سے پارٹی قیادت کی ہدایت کے باوجود کاغذات نامزدگی واپس نہ لینے پر خفیہ بیلیٹ کے ذریعے امیدواروں کا چناؤ ہوگا جس سے نہ صرف ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ اراکین اسمبلی ناراض امیدواروں کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جے یو آئی کا طلحہ محمود کے سینیٹ الیکشن لڑنے پر اعتراض
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ناراض امیدواروں نے کاغذات واپس نہ لیے تو پارٹی ڈسپلن کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا ہونا کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی سینیٹ انتخابات میں دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دے چکے ہیں۔
2018 کے سینیٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اکثریت ہونے کے باوجود اپنے عددی تناسب کے مطابق سینیٹ کی نشستیں نہیں جیت سکی تھی۔
مزید پڑھیں: کےپی میں سینیٹ الیکشن کرانےسےمتعلق اعظم سواتی کی درخواست پرسماعت ملتوی
پی ٹی آئی کا امیدوار الیکشن ہار گیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی صرف سات اراکین اسمبلی کی بدولت سینیٹ کی دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
پی ٹی آئی کے 19 اراکین اسمبلی نے مخالف جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے جس پر ان کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حکم پر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔
سینیٹ کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدوار طلحہ محمود نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ حکومت اور اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہےکہ اتوار تک پی ٹی آئی کے ناراض امیدوار دستبردار نہیں ہوئے تو حکومت اور اپوزیشن مل کر الیکشن لڑیں گے۔
مزید پڑھیں: کے پی سینیٹ الیکشن؛ پیپلزپارٹی نے اپوزیشن جماعتوں کو اہم مشورہ دے دیا
طلحہ محمودکے مطابق فیصلہ جس اجلاس میں ہوا، اس میں پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ علی امین گنڈا پور بھی شریک تھے، اپوزیشن کی جانب سے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
طلحہ محمود نے بتایا کہ حکومت اور اپوزیشن نے معاہدے پر عملدرآمدکی یقین دہانی کرائی ہے، حکومت کو 6 اور اپوزیشن کو 5 نشستیں ملیں گی، پی ٹی آئی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے ناراض امیدواروں کے خلاف کاروائی کرےگی۔
اس حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہےکہ سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ جن امیدواروں کو بانی پی ٹی آئی نے نامزد نہیں کیا وہ کاغذات واپس لیں، سیاسی کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں کارروائی ہوگی۔
ناراض رہنماؤں کا کاغذات نامزدگی کسی صورت واپس نہ لینےکا اعلان
خیال رہےکہ ناراض پی ٹی آئی رہنماؤں نے کاغذات نامزدگی کسی صورت واپس نہ لینےکا اعلان کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما خرم ذیشان کا کہنا ہے کہ بات سینیٹ الیکشن سے بہت آگے نکل چکی ہے، ان سیاسی پارٹیوں سے اندرونی ساز باز کیا ہمارے لیڈرکا نظریہ ہوسکتا ہے؟ میرا سینیٹ انتخابات سے دستبردار ہونے سے انکار ہے، جھکنے سے انکار ہے، مصلحتوں سے انکار ہے، بھاڑ میں جائے سیاست اور نشستیں، ہم اصول پرکھڑے ہیں اور رہیں گے۔