نیتن یاہو کا دعویٰ محض رعونیت ، اسرائیلی مدد کے بغیر بھی موبائل فونز بنانا ممکن ہے۔ مگر اس کی قیمت پر ضرور فرق پڑ سکتاہے ۔
اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو نے امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو کے ملاقات کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں کہاتھاکہ دنیا کا ہر موبائل فون اسرائیل کاٹکرا ہے۔
دراصل ان کی یہ رعونیت اسرائیلی خفت چھپانے کی ناکام کوشش تھی ۔ جس میں انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا اسرائیل دنیامیں تنہا نہیں ہے ۔
اسرائیلی وزیراعظم کے اس دعوے کے حوالے سے حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ موبائل فونز کی صنعت آج دنیا کی سب سے بڑی اور پیچیدہ صنعتوں میں سے ایک ہے۔
ایک جدید اسمارٹ فون بنانے کے لیے کئی ملکوں اور کمپنیوں کی مشترکہ محنت درکار ہوتی ہے. جس میں مختلف قسم کی تکنیکی مہارت، انجینئرنگ، اور مواد کی فراہمی شامل ہے۔
اسرائیل اس صنعت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ خاص طور پر موبائل فونز کی جدید ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی کے شعبے میں۔
موبائل فون کی چپ ڈیزائننگ،کیمرہ ٹیکنالوجی اورموبائل سیکیورٹی میں تکنیکی کمپنیوں نے کئی ایجادیں کی ہیں۔
موبائل فونز کی قیمتوں میں اضافہ اور معیار پر فرق پڑ سکتاہے
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ موبائل فون بنانے کے لیے اسرائیل کی تکنیکی مدد ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔مگر اسرائیل کی مدد کے بغیر بھی موبائل فون بنانا ممکن ہے۔
اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ باقی دنیا کی ٹیکنالوجی اور وسائل کس حد تک دستیاب ہیں۔
تاہم اسرائیل کی مدد کے بغیرجدید اورہائی اینڈ موبائل فونز کی تیاری مہنگی اور زیادہ وقت طلب ہو سکتی ہے۔
مزید برآں یہ کہ دنیاکی کئی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اسرائیلی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہیں۔ خاص طور پر موبائل فونز کی حساس اور جدید خصوصیات میں۔
اسرائیل کے بغیر ان خصوصیات کو دوبارہ ایجاد کرنے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری اور محنت درکار ہوگی۔
نتیجتاً موبائل فونز کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور صارفین کو کم معیاری پروڈکٹس دستیاب ہوسکتے ہیں۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل کی مدد کے بغیر موبائل فون بنانا تکنیکی طور پر ممکن ہے۔