اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے دوران ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے۔
ان کے مطابق 63 اے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت متعدد کیسز میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے اور کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار مخصوص طور پر دیا گیا ہے؟ اس پر حافظ احسان نے کہا کہ عدالت کے سامنے موجود کیس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، بلکہ یہ ایک الگ آئینی معاملہ ہے۔
حافظ احسان نے مزید کہا کہ کئی ٹیکس دہندگان نے ریٹرنز فائل ہی نہیں کیے اور اب فائدہ اٹھانے کے خواہش مند ہیں، ٹیکس کے مقصد پر سوال اٹھانا عدالت کا اختیار نہیں ہے، تاہم عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو قانونی طور پر پائیدار نہ ہونے اور متضاد قرار دیا اور کہا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، چاہے وہ پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ۔
ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان نے اپنے دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد مزید سماعت جاری ہے۔