روسی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان آئندہ دنوں میں ایک اہم ملاقات طے پا گئی ہے۔
اس ملاقات کو عالمی سفارتی حلقوں میں روس-یوکرین جنگ کے تناظر میں ایک ممکنہ پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
روس کے اعلیٰ عہدیدار اور صدر پیوٹن کے مشیر برائے امورِ خارجہ، یوری اُشاکوف کے مطابق ملاقات کے مقام پر فریقین میں اتفاق رائے ہو چکا ہے اور اس کا باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے۔
یہ ملاقات صدر ٹرمپ کے دوسری مدتِ صدارت کے آغاز کے بعد پیوٹن کے ساتھ ان کی پہلی براہ راست گفتگو ہوگی، جسے بین الاقوامی سطح پر کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔
اگرچہ اس ملاقات سے جنگ کے فوری خاتمے کی توقع نہیں تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ مکالمہ بحران کے حل کی طرف ایک ممکنہ پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
ادھر یوکرین میں جنگ سے تنگ عوام اب بات چیت کے ذریعے امن کی بحالی کے خواہاں دکھائی دے رہے ہیں۔ معروف سروے ادارے گیلپ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، 70 فیصد یوکرینی شہریوں کا خیال ہے کہ ملک کو جلد از جلد مذاکرات اور امن معاہدے کی راہ اپنانی چاہیے، جب کہ صرف 25 فیصد اب بھی عسکری حل کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، فروری 2022 میں جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک روسی حملوں میں 12,000 سے زائد عام شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، جب کہ دونوں اطراف کے دسیوں ہزار فوجی بھی اس تنازع کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے حالیہ بیان میں روس کو جمعہ تک کی مہلت دی ہے کہ وہ یوکرین میں عسکری کارروائیاں فوری طور پر روکے، بصورت دیگر اسے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے صدر پیوٹن کو براہِ راست مذاکرات کی دعوت دی تھی جسے ماسکو نے مسترد کر دیا تھا اور اپنے دیرینہ مطالبات پر اصرار برقرار رکھا۔
عالمی برادری اب اس نئی سفارتی کوشش کو باریکی سے دیکھ رہی ہے، جس سے امید کی جا رہی ہے کہ شاید تین سال سے جاری خونریز جنگ کے خاتمے کی کوئی سبیل نکل سکے۔