امریکا کی تمام 50 ریاستوں میں یومِ مزدور کے موقع پر “Workers Over Billionaires” کے نعرے کے تحت 1,000 سے زائد احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
مظاہرین نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، معیاری تعلیم، صحت اور رہائش کی فراہمی کے مطالبات کیے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔
نیویارک میں سیکڑوں افراد ٹرمپ ٹاور کے باہر جمع ہوئے اور صدر کے خلاف نعرے بازی کی۔ ریسٹورنٹ ورکرز نے سب سے زیادہ ’سب مِنی مَم ویج‘ کے خاتمے اور زندہ رہنے کے قابل اجرت کا مطالبہ کیا۔
اس وقت وفاقی سطح پر کم از کم اجرت 7.25 ڈالر فی گھنٹہ ہے، جو 2009 سے نہیں بڑھی، جبکہ کچھ ملازمین کو اب بھی 2.13 ڈالر فی گھنٹہ ’سب مِنیمَم ویج‘ پر رکھا جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ اجرت آج کے دور میں گزارہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
شکاگو میں ہزاروں افراد نے ٹرمپ کی اس دھمکی کے خلاف مظاہرہ کیا کہ شہر میں نیشنل گارڈ اور ICE ایجنٹس تعینات کیے جائیں گے۔
میئر برینڈن جانسن نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شکاگو کسی قسم کی وفاقی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ نیشنل گارڈ کے آنے سے مسائل حل نہیں بلکہ مزید بڑھیں گے۔
ماہرین کے مطابق شکاگو میں جرائم کی شرح حالیہ برسوں میں کم ہوئی ہے، لیکن ٹرمپ شہر کو بارہا “قتل گاہ” اور “جہنم” قرار دے چکے ہیں۔ احتجاجی عوام نے زور دیا کہ وفاقی اقدامات امریکی آئین اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہوں گے، جسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے مطالبات میں مہنگائی، رہائش، تعلیم اور صحت جیسے مسائل مشترکہ ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ ارب پتی طبقے کو نوازنے کے بجائے مزدور طبقے کی زندگی بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔